دو کمپنیوں کی غضب کہانی


آپ نے س±نا ہوگا کہ’ ملک دیوالیہ ہورہا ہے، وہ ہوچکا ہے۔ ہم دیوالیہ ملک میں رہنے والے ہیں۔ ایک چیتے نے باہر نکل کر ایک بندہ ماردیا،کچھ کو زخمی کردیا مگرچیتے کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی جرا¿ت نہیں۔ ایف آئی آر تک بے نامی کروائی گئی ہے۔اس ملک میں حکومت کی1500کینال اراضی پر گالف بنے ہوئے ہیں۔ ان گالف کلبوں میں اس ملک کی اشرافیہ اپنی شام بسر کرتی ہے۔ اس ملک میں سب سے زیادہ فائدہ ا±ٹھانے والے طبقات ان کلبوں میں جاتے ہیں۔ اگر صرف دوکلب ہی بیچ دیں تو آپکا کم ازکم ایک چوتھائی قرض ا±تر سکتاہے‘۔ہفتہ کے روز وزیردفاع خواجہ آصف نے ملک کی معاشی واخلاقی تباہی اور اشرافیہ کے کردار سے متعلق نوحہ پڑھ کرسب کو حیران کردیا۔ انہوں نے ملک کے معاشی اور اخلاقی طور دیوالیہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اشرافیہ کو بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے اس تباہی میں کلیدی کردار ادا کیاہے۔ ایسے ہی کرداروں کی وجہ سے آئی ایم ایف نے 1ارب 20کروڑ ڈالر قرض کیلئے خوفناک شرائط کا ایسا شکنجہ کسا ہے کہ عوام کا جینامحال ہوگیا ہے۔ ماضی میں حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر ہچکولے کھاتی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششیں کرتی رہیں مگر ہمارے سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں موجود طاقتور بیوروکریسی اور اشرافیہ نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے ان تمام کوششوں کو ناکام بنادیا۔آئی ایم ایف سے 1ارب 20کروڑ ڈالر قرض کیلئے ہر کڑی شرط تسلیم کی گئی مگر ہماری سرکاری کمپنیوں اور اداروں میں سالانہ 5ارب ڈالر سے زائد نقصانات اور بدعنوانی کے سامنے کوئی بھی بند باندھنے کو کیوں تیار نہیں۔ بجلی اور گیس کی کمپنیوں میں بدعنوانی اوربد انتظامی نے معیشت کے تمام شعبوں کو تباہی سے دوچارکردیا ہے۔ حکومت بھی ان کمپنیوں میں موجود طاقتور بیوروکریسی اور اشرافیہ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ صرف سوئی ناردرن اور سدرن میں گیس چوری،ٹیکنیکل لاسز،شاہانہ اخراجات اور اقرباپروری کے باعث قومی خزانے کو سالانہ 40ارب روپے سے زائد نقصان پہنچ رہا ہے۔ دونوں کمپنیوں کو گیس واجبات کی مطلوبہ وصولی نہ کرنے پر 600ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔
گذشتہ ماہ سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کی تباہ کن مالی صورتحال کی خبر وزیراعظم شہباز شریف تک پہنچی تو ا±نہوں نے نوٹس لیتے ہوئے پیٹرولیم ڈویژن سے جواب طلب کیا۔ 13فروری کو وزیراعظم آفس کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کو ایک مراسلہ ارسال کیا گیا۔ کچھ روز قبل انہی خوفناک مسائل پرمیں نے ایک ٹی وی پروگرام میں تفصیل کیساتھ کچھ حقائق پیش کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کو متوجہ کیا تھا کہ اگر بجلی اور گیس کی کمپنیوں کی کارکردگی اور افسران کی بدانتظامی کا نوٹس نہ لیا گیا تو ملکی کارخانے اور عوام مہنگی بجلی اور گیس استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بالآخر سوئی نادرن اور سدرن کی ناقص کارکردگی اور اربوں روپے نقصان پر13فروری کو دونوں کمپنیوں کے سربراہان کوچارج شیٹ کردیا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ اگر پیٹرولیم ڈویژن نے دونوں کمپنیوں کی مینجمنٹ کا احتساب کیا ہے تو جواب جمع کروائے۔ وزیراعظم نے گیس چوری اور ضیاع سے متعلق اوگرا سے تصدیق شدہ رپورٹ طلب کرلی۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کا ایک طرف گردشی قرض بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب کمپنی میں اربوں روپے کے نقصانات اور شاہ خرچیاں بھی جاری تھیں۔ پارلیمنٹیرینز لاونج،تزئین وآرائش ،پائپ لائن ٹھیکوں اور گاڑیوں پر کروڑوں روپے ا±ڑادئیے۔ایم ڈی سوئی ناردرن علی جاوید ہمدانی نے منظورنظر جونئیر افسران کو اہم ترین عہدوں پر تعینات کیا جس سے کمپنی کی کارکردگی مزید خراب ہوئی۔ خیبرپختونخواہ میں دریافت ہونیوالی گیس 55کلومیٹر پائپ لائن کے ذریعے سسٹم میں شامل کی جاسکتی تھی۔ وزیراعظم نے موسم سرما سے قبل گیس سسٹم میں شامل کرنے کی ہدایت بھی جاری کی مگر علی جاوید ہمدانی اور کمپنی اشرافیہ نے 270کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کا پلان بنایا۔ اوگرا نے بھی تحفظات کا اظہارکیا مگر اربوں روپے کے پرکشش ٹھیکے کے باعث شارٹ روٹ سے گیس سسٹم میں شامل نہ کی گئی۔وزیراعظم کی ہدایت پر پیٹرولیم ڈویژن متحرک ہوا اور احتساب کا عمل شروع ہوگیا۔ وزیراعظم کے نوٹس کیساتھ ایف آئی اے نے بھی پائپ لائن ٹھیکوں اور اخراجات کی انکوائری شروع کردی ہے۔ 18فروری کو سوئی ناردرن کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکا ہنگامی اجلاس طلب کیاگیا۔ بورڈ کی جانب سے ایم ڈی سوئی ناردرن علی جاوید ہمدانی کومعطل کرتے ہوئے ڈپٹی ایم ڈی عامر طفیل کو قائمقام ایم ڈی کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ دوسری جانب 23جنوری کو ملکی تاریخ کے بدترین پاور بریک ڈاون کی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہیں۔ اس پاوربریک ڈاو¿ن کے نتیجے میں ایک دن کے دوران 80ارب روپے کا ناقابل تلافی پہنچا تھا۔ اس پاور بریک ڈاون کی تحقیقات کے لیے چاررکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 18صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہواہے کہ بجلی کی قلت نہیں بلکہ 600 میگاواٹ ونڈ بجلی بجلی سسٹم شامل کرنے پر لاہور میں ایچ وی ڈی سی سسٹم میں فالٹ آیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں چلنے والے پاورپلانٹس ملی سیکنڈ میں بند ہوگئے۔گذشتہ 2سالوں کے دوران ایچ وی ڈی سی سسٹم لاہورمیں 300مرتبہ فالٹ آیا مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ ٹرانسمیشن کا یہ سسٹم چینی کمپنی نے تعمیر کیاہے مگر اس سسٹم میں خوفناک فالٹس آنے کے باوجود سب نے چ±پ سادھ رکھی ہے۔ کمیٹی نے این ٹی ڈی سی کے ذمہ دارافسران،پاور کنٹرول مینجمنٹ،شفٹ انچارج اور اسکی ٹیم کے خلاف ادارہ جاتی انکوائری کی سفارش کرتے اصل کرداروں کو بچانے کی راہ ہموار کردی ہے۔ دو کمپنیوں کی یہ غضب کہانی ا±س تباہی کی نشاندہی کررہی ہے جس کے باعث ڈالر 273روپے تک پہنچا،غریب عوام قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے اور ملک دیوالیہ ہوچکا مگر ان کمپنیوں میں غدر مچانے والوں کے خلاف صرف ادارہ جاتی کارروائی کی بھونڈی سفارش کی گئی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اورا±نکی کابینہ کا کڑا امتحان ہے کہ وہ ایسے کرداروں کے سامنے حسب روایت گ±ھٹنے ٹیکتے ہیں یا ا±نہیں کیفرکردار تک پہنچاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...