نوےکلا پندھ

Feb 20, 2023

حسن جلیل


لاہور مےں آج کل ادبی میلوں کا سماں ہے ، پچھلے ہفتے احمد شاہ کا پاکستان لٹریری فیسٹےول اور اس ہفتے وہےں ’فےض فےسٹےول‘ سجا ہوا ہے ۔ ان دونوں مےلوں کی خاص بات ےہ کہ ان مےں آنے والے زیادہ تر نوجوان ہےںاور ہمےں اس بات پر خوشی ہونی چاہے کہ ہمارے نوجوان کسی طور بھی ادب سے دو ر نہےں ہےں ، بلکہ وہ جوق در جوق اس کے ساتھ جڑتے جا رہے ہےں اور ناصرف ایسی محافل مےں شامل ہو رہے ہےں بلکہ خود سے ادب تخلےق بھی کر رہے ہےں ۔ اس ادب مےں بہت ساری ایسی باتیں ہو سکتیں ہےں کہ جن سے شاید ناقدین کو اختلاف ہو مگر چونکہ آج کی نسل کچھ زیادہ ہی ٹیڑھی ہے اس لئے اپنی بات کرنے کے لئے اسے سرگوشیوں یا پھر علامتوں کی ضرورت نہےں ، چونکہ ےہ جتنے ٹےڑھے ہےں ےہ اُتنا ہی سیدھا لکھتے ہےں، آسان الفاظ مےں اپنی بات کرتے ہےں اور قاری کو بھی اب زیادہ محنت نہےں کرنی پڑتی ۔ہر بات سیدھی دل مےں اُتر جاتی ہے اور دماغ مےں اپنے نقش بنا لےتی ہے۔ اےسے ہی کچھ شاعروں کی بات گزشتہ تحریر مےں میں کر چکا ہوں۔ مگر اس بار زیرِ نظر دو کتب اےک نو وارد مصنفہ ڈاکٹر کنول صبا عمران کی پنجابی مےں” نوےکلا پندھ“ اور اردو مےں ”میموری کارڈ“ ہےں۔
زمانہ¿ طالب علمی میں پڑھا تھا کہ جب روشنی کسی منشور (Prism) سے گزرتی ہے تو مختلف رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جسے طیف (Spectrum) کہتے ہیں۔ معاشرہ اور زمانہ روشنی بن کر جب ڈاکٹر کنول صبا عمران کے دماغی منشور پر اپنی میموری محفوظ کرتا گیا تو وقت آنے پر نوےکلا پندھ اور میموری کارڈ جیسا سپیکٹرم قارئین کے سامنے رنگ بکھیرتا چلا گیا۔تونسہ شریف جیسے پسماندہ علاقے کی جواں سال تلاشِ علم میں جب لاہور جیسے ترقی یافتہ ماحول میں پہنچی اور یہاں رہ کر اور یہاں کا سرد گرم چکھ کر جن حالات و واقعات سے دو چار ہوئی، نہایت ایمانداری اور چابک دستی سے قلم کا سہارا لے کر کسی داستان کے مرکزی کردار کی طرف کہانی پہ کہانی سناتی چلی گئی۔ موضوع روز مرہ کے واقعات ہوں، ذاتی مشاہدات ہوں، گھر کے نوکروں کی بدمعاشیاں ہوں، بیٹے کی خواہش ہو، بیٹیوں کے رشتوں کے دکھ ہوں، خونی رشتوں کی خود غرضی ہو، جدید ایجادات کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشرتی خرابیاں ہوں، محبت کی نفسیات کا بیان ہو، بڑے لوگوں کی چھوٹی سوچ ہو، عورت کی نفسیات کا تجزیہ ہو، والدین کی سنگدلی اور جہالت کا تذکرہ ہو، پیار کرنے والوں کے سچے پیار کا بیان ہو، سیاسی دور میں تعلیمی ناقدری پر طنز ہو، میاں بیوی کے کمزور ازدواجی تعلقات ہوں، کووڈ 19 کی تباہ کاریاں ہوں یا پھر سیلاب 2022ءسے پیدا ہونے والا انسانی المیہ، ڈاکٹر کنول کا قلم اپنے مخصوص انداز میں اپنے اردگرد کے ہر دکھ، نا انصافی، غم اور خوشی کا احاطہ کرتا چلا جاتاہے۔
ڈاکٹر کنول عمران کے عمیق مشاہدے کو دیکھتے ہوئے ندا فاضلی کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آ جاتا ہے:
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
ڈاکٹر صاحبہ نے واقعی ایک آدمی میں دس بیس آدمیوں کا مشاہدہ کر کے ” نوےکلا پندھ“ اور ”میموری کارڈ “ کی شکل میں نہ صرف تلخ حقیقتوں کو بیان کیا ہے بلکہ کچھ کہانیوں میں چونکا دینے والے انکشافات اور سبق آموز اختتام، نئی نسل اور والدین کے لئے مشعل راہ ہیں۔ نہایت خوش اسلوبی اور سادہ انداز میں معاشرتی بیماریوں کی تشخیص کرتے ہوئے علاج بھی بتا دیا ہے ۔بڑی کہانی لکھنے کے لئے بھاری بھرکم نام والا کہانی نگار ہی کہانی کار نہیں ہوتا بلکہ علاقائی پسماندگی کے باوجود اےک ایم۔ بی۔ بی۔ ایس ڈاکٹر خاتون کس قدر عمیق مشاہدے کی مالک اور کس قدر اچھی اور سچی کہانی زیب قرطاس کر سکتی ہے، اس کا ثبوت دیکھنا ہو تو ”برین ٹیومر“، ”بجھارت“، ”چھوٹو“، ”میرے نوکر میرے ویری“، ”اُچا قد“، ”نواں جوڑا“، ”بہارتے کلر کہار“، ”رب دی مرضی“، ”آخری کتاب“، ”بھوری بھینس“، ”گڑیا رانی“ جیسی دھنک رنگ کہانیاں پڑھ کر دیکھیں۔ ”کنول“ کا پھول کہیں بھی کھلے خوشنما ہوتا ہے۔ 
ےہ دونوں کتب ہمارے سماج کے سلگتے مسائل کا احاطہ کرتی ایسی کہانیوں کا مجموعہ ہیں جو ایک حساس تخلیق کار کے حساس دل کو کرب سے بھر دیتی ہیں۔ ڈاکٹر کنول ایک ایسی نوآموز ادیبہ ہے جس کو معاشرے کی سچی اور تلخ حقیقتوں نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ اس کو معاشرے کے ان گنت مسائل، تلخ حقائق، استحصال، لاقانونیت اور انسانیت کی بے توقیری لہو کے آنسو رُلاتی ہے۔ وہ ایک طرف اولاد کی بہتر نشوونما اور فکر میں پریشان والدین کا ذہنی تناﺅ اور کرب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی برائیوں کی اصل جڑ کی طرف اشارہ کرتی ہے تو دوسری طرف اولاد پر جبر کی ایسی رُوداد بیان کرتی ہے جو روح تک کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ وہ انسان کی شخصیت میں موجود شر اور خیر کی مختلف صورتیں اجاگر کرتی ہے کہ کیسے دوسروں کا استحصال کر کے سب کچھ پا لینے کی خواہش کرنے والوں کے سامنے ایسی خندقیں آتی ہیں جن میں گر کر وہ سب کچھ ہار جاتے ہیں۔ وہ احترامِ آدمیت کا درس دیتی ہے تا کہ معاشرے کے کرخت اور غیر انسانی رویے کسی کو بھکاری نہ بنا دیں۔ جہاں اس نے والدین کے دکھ سکھ، معاشرے کے جبر اور رائج رسم و رواج پر قلم اٹھایا ہے وہیں اولاد کے کردار کو بھی مثبت اور منفی دونوں حوالوں سے نمایاں کیا ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی متمنی ہے جہاں امیر غریب یکساں حقوق کے حامل ہوں۔ عورت کو ایک فرد سمجھا جائے، اس کی کمتری یا برتری کا راگ نہ الاپا جائے۔ اکثر کہانیوں کا اختتام بہت چونکا دینے والا ہے اور انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ امید ہے یہ مجموعہ نثری ادب میں ایک بیش بہا اضافہ ثابت ہو گا۔ 

مزیدخبریں