پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کی آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ کے تعین کے حوالے سے صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے۔ صدرِ مملکت نے اب تک چیف الیکشن کمشنر کے نام دو خطوط ارسال کیے ہیں جن میں انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مبینہ تساہل کو بے حسی سے تعبیر کرتے ہوئے 20 فروری کو ایوانِ صدر میں باہمی مشاورت کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس خط کے جواب میں الیکشن کمیشن نے صدر کی طرف سے بے حسی کے الفاظ استعمال کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے تاہم 20 فروری کو صدر سے ملاقات کا عندیہ بھی دیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں دونوں مناصب پر متمکن شخصیات کے ساتھ ساتھ بعض وفاقی وزراءاور صدر کے حامی سیاستدان کی طرف سے الفاظ کی جو چاند ماری ہورہی ہے وہ سیاسی ماحول کو مزید مکدر کررہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صدرِ مملکت کا منصب اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ ملک کی تمام اکائیوں میں اتحاد و یکجہتی اور و حدت کے حوالے سے ایسا مثبت کردار ادا کریں کہ ان کی حیثیت متاثر نہ ہو اور نہ ہی ان پر جانبداری کا ٹھپہ لگنے پائے ۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی آئینی ادارہ ہے جس کا بنیادی فرض یہ ہے کہ ملک میں آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔ اس کی ساکھ اور اعتباریت بھی اس کے غیر جانبدارانہ کردار ہی سے مشروط ہے۔ ملک اس وقت جس قسم کی سنگین انتظامی ، سیاسی اور معاشی صورتحال سے دوچار ہے اس میں اداروں کے درمیان ہم آہنگی بے حد ضروری ہے۔ محاذ آرائی، کھینچا تانی اور مخاصمت نہ صرف اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے بلکہ ملک کو بھی ناقابلِ برداشت نقصان پہنچنے کا احتمال رہتاہے۔ سو حالات کاتقاضا یہ ہے کہ ایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملک کے بہترین مفاد میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اوراپنی حیثیت کو منوانے کے نتائج ہم گزشتہ دس ماہ میں دیکھ چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے جانبین کی طرف سے ایسے اقدامات سے قطعی گریز کیا جائے جو ملک و قوم کے لیے مزید کسی نقصان یا تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔
صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر میں جاری چپقلش
Feb 20, 2023