فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
اوکاڑہ پنجاب کا مشہوراور خوبصورت شہر ہے ۔دریائے راوی سے سو کلومیٹر دور آباد یہ شہر کپاس کے ساتھ ساتھ ملک عزیز کے لیے بہت سی غذائی اجناس مثلاً چاول، ٹماٹر،آلو، مکئی وغیرہ مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ان اجناس کی پیداوار کی وجہ سے اوکاڑہ عالمی منڈیوں میں اہم مقام رکھتا ہے ۔اس کے علاوہ یہاں پر کثیر تعدا د میں ڈیری فارمز بھی ہیں ۔ آبادی کے لحاظ سے اوکاڑہ کا شمار بڑے اضلاع میں ہوتا ہے۔اوکاڑہ کے لوگ بڑے محب وطن ہیں ۔تحریک پاکستان میںاس خطہ کے لوگوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ضلع اوکاڑہ کا معروف قصبہ شیر گڑھ، جہاں مغلیہ عہد میں قادری سلسلہ کے معروف بزرگ حضرت سید دائود بندگی کرمانی ؒ کا مزار مرجع خلائق ہے۔حجرہ شاہ مقیم جہاں حضرت شاہ مقیم ؒ کا مزار ہے۔اوکاڑہ کے قریب حضرت سیدمحمد اسماعیل شاہ بخاری ؒ کی خانقاہ مرکز فیض و علم و حکمت ہے۔خطیب پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع اوکاڑوی اور مولانا غلام علی اوکاڑوی کی وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر اوکاڑہ شہر متعارف ہوا۔
شیخ الاسلام حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی پاک دھرتی پاکتن شریف حاضری کے لیے جاتے ہوئے کئی بار اس شہر سے کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوا ۔دور حاضر کے محقق،دانشور، مصنف اور سیرت نگار پروفیسر ڈاکٹر عقیل احمد کی وجہ سے اوکاڑہ شہر کی زیارت بھی ہو گئی۔کچھ عرصہ قبل اس شہر کے ایک معروف و مقبول عالم دین شیخ الحدیث حضرت مفتی احمد یار خان رضوی دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ان کی عظیم دینی و روحانی خدمات کو ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لیے اوکاڑہ شہر کے ٹائون ہال میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔پروفیسر عقیل احمد کے ساتھ اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے اس بابرکت سفر کا آغاز لاہور سے ہوا۔لاہور سے اوکاڑہ کا سفر اگرچہ زیادہ نہیں لیکن سڑک کی بدحالی اور بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔کہنے کو تو ملتان روڈ ہائی وے ہے لیکن سفر کا تجربہ مقامی سڑکوں سے بھی بد تر ہے۔کاش ایک موٹر وے اس طرف بھی بن جائے تاکہ وقت کی بچت اور حادثات سے بچا جائے۔طویل سفر کے بعد جیسے ہی اوکاڑہ شہر پہنچے تو منتظمین محفل کے والہانہ انداز میں استقبال نے سفر کی ساری تھکن اتار دی۔تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولﷺ سے ہوا۔پروفیسر ڈاکٹر عقیل احمد ،پروفیسر ڈاکٹر انوار اللہ طیبی ڈاکٹر وسیم حسن قریشی ، قاری اکرم چشتی اور راقم السطور نے شیخ الحدیث و تفسیرمفتی احمد یار خان رضوی صاحب کی حیات و خدمات کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔تقریب کی صدارت مفتی صاحب کے صاحبزادے علامہ مفتی ظفر احمد چشتی صاحب نے فرمائی۔
مفتی احمد یار خان رضوی ؒ ضلع اوکاڑہ کی ایک بستی ’’پپلی پہاڑ‘‘ میں پیدا ہوئے۔علوم اسلامیہ میںآپ نے شیخ الحدیث مفتی عبداللہ قصوری ؒ ،مولانا منظور احمدؒ اور مولانا عبدالعزیزؒ سے اکتساب فیض کیا۔دورہ حدیث محدث اعظم مولانا سردار احمدؒسے مکمل کیااور علوم القران میںحضرت شیخ القران مولانا غلام علی اوکاڑویؒ سے بھر پور استفادہ کیااور آپ کے قائم کرد ہ جامعہ ’’ اشرف المدارس‘‘ میںتدریسی فرائض سر انجام دینے لگے۔علمی تبحر اور فقہی بصیرت کی وجہ سے اوکاڑہ شہر اور اس کے گردو نواح کے عوام کے قلوب و اذاہان کا مرکز و محور بن گئے ۔حضرت مفتی صاحب کا انداز بیان ، شعری ترنم ، نثری لحن ، آیات کی تلاوت ممتاز عالم دین، حضرت خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی ؒ سے بہت مشابہ تھا۔حضرت مفتی صاحب جس طرح علمی رسوخ کا پیکر تھے اس طرح اعمال صالح بالخصوص احکام شریعت پر سختی سے کار بند تھے۔تدریسی اور تبلیغی مصروفیات کی وجہ سے تصنیف و تالیف کا وقت نہ مل سکا۔ایک اچھی اور اعلیٰ تحریر کے خصائص کی کامل معرفت تھی۔عربی زبان و ادب کے علاوہ فارسی بالخصوص اردو زبان کے الفاظ، جملوں،تراکیب، محاورے اورضرب الامثال پر بھی گہری نظر تھی۔جامعہ سے آپ کی قلبی وابستگی مثالی تھی۔آپ نصف صدی علوم اسلامیہ کی آبرو اور مسند وعظ و خطاب کی رونق رہے۔بلا مبالغہ مخلوق کی ایک کثرت آپ سے مستفید ہوئی۔ آپ کے مواعظ، دروس، خطبات اور دیگر کمالات سے استفادہ کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔اخلاص آپ کی طبیعت اور حسن اخلاق آپ کی عادت تھی ۔استقامت آپ کا مزاج تھا اور علمی رسوخ آپ کی پہچان تھی تو صالحیت ان کا اظہار تھی۔آپ مسند علم کی آبرو تھے جن کی دانش برہانی سے حکمت و دانش کے چشمے پھوٹتے تھے۔نماز جنازہ میں مخلوق خدا کی کثیر تعداد یہ گواہی دے رہی تھی کہ وہ خالق کائنات کی بارگاہ میں کتنے مقبول تھے۔اللہ پاک ان کے علمی فیضان کو جاری رکھے اور ان کی تربت پر ہمہ وقت رحمتوں کا نزول فرمائے۔انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی خطہ ، گروہ ، قبیلے ،قوم یا قافلہ کی فکر کو بدلنے کے لیے ایک ہی فرد کافی ہوتا ہے۔جو اپنے فہم و تدبرسے عوام کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے۔ پھر اس مرد عظیم اور رجل رشید کی فکر سے ایک جہاں بہرہ یاب ہوتا ہے ۔نابغہ روزگار ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔شاعرنے اس فلسفہ کو بڑے عمدہ انداز میں بیان فرمایا۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت خصوصاً پاکستان کوایسے رجال کار کثرت سے عنایت فرمائے جو ان کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے۔