الیکشن 2024ءکے آفٹر شاکس

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
8فروری 2024ءکو ہونے والے انتخابات جس غیریقینی کی صورت حال میں ہوئے اس سے بڑھ کر انتخابات کے بعد ابہام پایا جاتا ہے ۔ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف کو 93سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی جب کہ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ فارم 45کے مطابق اس کے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد179ہے ۔ اس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 85نشستوں پر ان کے جیتے ہوئے امیدواروں کو فارم 45پر ہرایا گیا۔الیکشن کے بعد آفٹرشاکس کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو تھمنے میں نہیں آ رہا ہے ،ایک سے بڑھ کر ایک آفٹر شاک ہے۔ میاں نوازشریف کو لندن سے بلایا گیا تھا،الیکشن سے ایک روز قبل میڈیا پر بڑے بڑے اشتہار شائع کروائے گئے ”وزیراعظم نوازشریف“۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے ووٹر کو بھی باور کروایا گیا کہ میاں نوازشریف انتخاب جیتنے کی صورت میں وزیراعظم ہوں گے۔الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف کی 93سیٹوں کے مقابلے میں 75سیٹیں حاصل کر سکی۔ پیپلزپارٹی کے حصے میں 54سیٹیں آئیں۔ کوئی بھی ایک پارٹی اپنے طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ لہٰذا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ایک پیج پر آ گئیں۔ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کے وزیراعظم کی چند شرائط کے ساتھ حمایت کرنے کا اعلان کیا۔میاں نوازشریف جن کے بارے میں واضح طور پر مسلم لیگ ن نے کہا تھا کہ وہ چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے لیکن انتخابات 2024ءکا سب سے بڑا آفٹر شاک یہ تھا کہ میاں نوازشریف کی نامزدگی مسلم لیگ ن کی طرف سے واپس لے لی گئی ان کی جگہ شہبازشریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا۔ایسا ہی ایک اور آفٹر شاک ابھی نتائج مکمل نہیں ہوئے ایک درخواست سپریم کورٹ میں آٹھ فروری کے انتخابات کو وسیع پیمانے پر دھاندلیوں کا الزام لگا کر کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کر دی گئی ، اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ تشکیل دے دیا گیا اس کے دوسرے ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر اور مسرت ہلالی ہیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ باقی بھی کئی جماعتوں کی طرف سے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کیا گیا ہے۔اور ان پارٹیوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہے۔بہت سے لوگوں کی نظریں عدالت کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔سپریم کورٹ آٹھ فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر کیا فیصلہ کرتی ہے، عدالتوں کی طرف سے عمران خان کو ایک کے بعد دوسرے ،دوسرے کے بعد تیسرے کیس میں چار دنوں میں مجموعی طور پر 33سال کی قید سنائی گئی۔ اس سے قبل توشہ خانہ کیس میں ان کو دس سال کی قید سنائی گئی تھی۔ ہماری عدلیہ کا 193ممالک میں سے 126واں نمبر ہے۔ یہ ہمارے قانون دانوں کے لیے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔ادھر ایک آفٹر شاک یہ بھی ہے کہ جاوید لطیف جو میاں نوازشریف کے بہت قریبی رہنما ہیں اور اپنی سیٹ بھی وہ نہ نکال سکے ان کی طرف سے عندیہ دیا گیا ہے کہ میاں نوازشریف چیک اپ کے لیے لندن جا سکتے ہیں۔میاں نوازشریف کی بطور وزیراعظم باقاعدہ نامزدگی نہیں کی گئی اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کہاں کھڑی ہے۔ اس کی پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بن سکتی ہے لیکن یہ حکومت ایسی کمزور بنیادوں پر ہو گی کہ اس عمارت کا چھ مہینے سے زیادہ کھڑے رہنا بعض ماہرین کے مطابق ممکن نظر نہیں آتا۔ادھر پاکستان کی معیشت کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جمہوریت بھی لوگوں کو نظر آ رہی ہے، امن و امان کی صورت حال ،دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ مریض لبِ مرگ ہے۔
ہر پارٹی کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر احتجاج کا اعلان اور شہر شہر مظاہرے ۔ایک اور آفٹر شاک ہے مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا یہ شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کے مترادف ہے۔ جی ڈی اے، اے این پی، بی این پی، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، پاکستان مرکزی مسلم لیگ اور کئی دیگر پارٹیاں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ انتخابات کا ایک اور آفٹر شاک مولانا فضل الرحمن کی طرف سے تحریک انصاف کے وفد کے ساتھ ملاقات اور ایسا ہی ایک اور آفٹرشاک ان کی طرف سے تحریک عدم اعتماد میں ساری پارٹیوں کو عمران خان کے خلاف متحد کرنے کا الزام جنرل باجوہ پر لگانا ہے۔ یہ آفٹرشاک میاں نوازشریف کے وزیراعظم نامزد نہ ہونے اور عدالت میں انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست اور قائم کیے گئے بینچ جیسا ہی آفٹر شاک ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سائفر کیس جس میں عمران خان کو سزا ہو چکی ہے ،اس کیس کو بھی مشکوک بنا دیا ہے ۔جنرل باجوہ نے اگر یہ کہہ کر بھی کہ فوج اے پولیٹیکل ہو چکی ہے تحریک عدم اعتماد کے لیے سیاسی لیڈروں کو اکٹھا کیا تو یہ پاکستان کی اور پاکستان کی جمہوریت کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ اگر ان پر یہ جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں تو انہیں بلاتاخیر سوءکرنا چاہیے۔
اور قارئین اب تک کا سب سے بڑا اپ سیٹ اور آفٹر شاک آج اس وقت ہمیں دیکھنے کوملا جب کمیشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ صاحب نے ہنگامی طور پر بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں یہ اعتراف کر لیا کہ راولپنڈی ڈویژن کی 13قومی اسمبلی کی سیٹوں اور صوبائی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر انہوں نے دھاندلی سے تحریک انصاف کے امیدواران کو ہروایا اور ساتھ ہی یہ بھی اعتراف کیا کہ پاکستان کے چیف الیکشن کمیشنر اور بہت بڑے ادارے کے سربراہ اس دھاندلی میں برابر کے شریک ہیں۔کمیشنر راولپنڈی نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ انہیں راولپنڈی کچہری چوک میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے اور انہوں نے یہ فیصلہ ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیا ہے۔قارئین!یہ راولپنڈی ڈویژن جس میں اٹک، چکوال، جہلم، تلہ کنگ اور راولپنڈی کے اضلاع آتے ہیں اور ان حلقوں سے جیتنے والے مسلم لیگ ن کے تمام امیدواران کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔اور بلکہ گذشتہ ہونے والے پاکستان کے الیکشن کو مشکوک بنا دیا ہے۔
انتخابات کے بعد استحکام کی ایک امید پیدا ہوئی تھی لیکن وہ امید نقش برآب ثابت ہوئی ہے۔حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔جس طرح کے آفٹرشاکس آ رہے ہیں اس طرح ماضی میں آئے ہیں نہ اگلے سو ڈیڑھ سو سال میں آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں اس کا حل ایک ہی ہے کہ بلاتاخیر انتخابات کرا دیئے جائیں۔ جو رِٹ آٹھ فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے دائر کی گئی ہے اگر کچھ نہ اس میں ہوتا تو قاضی فائز عیسیٰ اسے کبھی منظور نہ کرتے،لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ری الیکشن کروا دیئے جائیں، کئی پارٹیاں یہ مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نظر نہیں آتا ۔نئے انتخابات پر 70ارب روپے لگیں گے اگر نہیں ہوتے تو ملکی معیشت تو پہلے ہی ڈوبی ہوئی ہے اس کی جو حالت ہو گی اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی انتخابات سات آٹھ ماہ بعد تو ہونے ہی ہیں۔ بہتر ہے کہ اناﺅں کے خول سے نکل کر ری الیکشن کا اہتمام کر دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن