(نسیم الحق زاہدی)
عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیادبدتمیزی،بداخلاقی پر رکھی تھی اور اپنے فدائیوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ حسن بن صباح کے پیروکاروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے،ان کے نزدیک قوم وملک سے زیادہ اہم عمران خان ہے۔دھرنوں میں قوم کے بیٹے اوربیٹیوں کو نچوانے کے ساتھ ساتھ ان کی رگوں میں بغاوت کا وہ زہر انجیکٹ کیا کہ وہ سننے،سمجھنے کی حس،اچھائی اور برائی کی تمیز کھو بیٹھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان نے 76سالوں سے روٹی،کپڑا اور مکان کے لیے ترستی مظلوم عوام کی نفسیات پر وار کیا،ان کے جذبات،احساسات کے ساتھ کھیلا ان کو روشن مستقبل کے خواب دیکھا کر ان کا آج بھی برباد کردیا۔اپنے دھرنوں میں بدزبانی،گالم گلوچ کی نہ ختم ہونے والی ابتداءکی اپنے سیاسی حریفوں کو برے القابات کے ساتھ پکارا۔اگست 2018کوجب عمران خان نے پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اس وقت عوام یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید پاکستان اب واقعی ”ریاست مدینہ“بن جائے گا۔مگر راقم الحروف نے اس وقت بھی اپنے کئی کالموں میں اس خدشہ کا برملا اظہار کیا تھا کہ عوام نئے پاکستان کی خواہش میں قائداعظم کے پاکستان سے بھی جائے گی اور وہی ہوا۔اس وقت پاکستان کی ایک بڑی تعداد پرامید تھی کہ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے متعدد وعدوں اور دعوو¿ں کو عملی جامہ پہنائیں گے جن کے تحت پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ،احتساب اور بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی،بیرونی قرضوں میں کمی،اداروں خصوصا پولیس کی اصلاحات،جنوبی پنجاب صوبے،وزیراعظم ہاو¿س میں یونیورسٹی کا قیام،ایک کروڑ نوکریاں،پچاس لاکھ گھر وں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغازہوگا۔ان تمام بڑے وعدوں میں کوئی ایک بھی وعدہ وفا نہ ہوسکا۔تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی،عمران خان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی محاذ تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے،آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے،قرضے کم کریں گے،مہنگائی کا خاتمہ کریں گے لیکن یہ ناممکن دعوے تھے۔ان کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ،مہنگائی سے لیکر قرضوں کے حجم میں غیر یقینی حد تک اضافے ہوئے۔عمران حکومت کی بڑی ناکامی کی وجہ ناقص پالیسیاں اور نااہل لوگ کو بڑی وزارتیں دینا تھیں جس طرح پنجاب جیسے اہم صوبے کو ایک ناتجربہ کار کے ہاتھ میں دے دینا تھا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 2019-20کے دوران مجموعی طور پر 13ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے حاصل کیے۔جو ملکی تاریخ میں حاصل کردہ قرضوں کا دوسرابڑا حجم ہے۔اس میں (آئی ایم ایف)بھی شامل ہے۔یہ وہی آئی ایم ایف تھا کہ جس کے پاس نہ جانے کاعمران خان نے دعوی کیا تھا۔پھر کہا گیا کہ اگر آئی ایم ایف کے پاس نہ گئے تو ملک ڈیفالٹ کرجائے گااورپھر کہا کہ اس کے پاس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔”لوگوں کو اتنا جھوٹ بار باربتاو¿ کہ وہ سچ ماننے لگ جائیں اور جھوٹ اس حساب سے بولنا ہے کہ پہلے والے جھوٹ کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ایک نیا جھوٹ بولنا ہے تاکہ جھوٹ کا تسلسل برقرار رہے اور لوگ اسی شیطانی چکر میں پھنسے رہیں“یہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سیاست کا مرکزی نظریہ ہے۔حکومت سے لیکر حکو مت جانے کے بعد اور ابھی تک وہ صرف جھوٹ ہی بول رہے اور جھوٹ ہی بیچ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس سچ بتانے کو کچھ نہیں اور سچ کا سامنا کرنے ہمت نہیں،انہوں نے سچ کہا تھا کہ ”میں حکومت سے نکالے جانے کے بعد اور خطرناک ہوجاو¿نگا“یہ بات بالکل درست تھی کہ ان کو علم تھا کہ وہ اس قدر جھوٹ بولیں گے کہ وہ اس ملک وقوم کے لیے خطرناک ہوجائیں گے اور شاید یہ واحد سچ ہے،جو انہوں نے پچھلے کچھ عرصے سے بولا ہو گا۔موجودہ جھوٹوں میں پہلا جھوٹ یہ تھا کہ مجھے نکالنے کے لیے امریکہ نے سازش کی اور جھوٹ پر مبنی خط عوام کے سامنے لہرایا،جب یہ جھوٹ اپنے اختتام کو پہنچا تو پھر نیا اور سب سے خطرناک جھوٹ بولا کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سابق آرمی چیف نے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے ساتھ ملکر حکومت کو ختم کیا۔مولانا فضل الرحمن کے تازہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات اور جھوٹ پر مبنی دعوو¿ں میں کوئی حقیقت نہیں۔جن دوسابق جنرلوں پر مولانا فضل الرحمن نے الزمات لگائے ہیں ان کے قریبی حلقوں کی طرف سے تردیک بھی آچکی ہے ایک سوال:کہ اگر مولانا کہ بقول جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا کہا تھا تو مولانا نے اس وقت انکار کیوں نہ کیا؟کہتے ہیں کہ اس وقت مخالفت اس لیے نہیں کی کہ کہیں مجھ پر عمران خان بچانے کا الزام نہ لگ جائے۔افسوس کہ اس وقت جن جنرل حمید فیض حمید کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ اس ملاقات میں تو شامل ہی نہیں تھے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ مولانا کی طرز سیاست کی وجہ سے ان کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی ہے اور حالیہ عام انتخابات میں ناکامی پر اب مولانا یو ٹرن لے رہے ہیں۔7فروری کو مولانا نے حق نواز پارک ڈیرہ اپنی انتخابی مہم کے آخری جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”عمران خان یہودی ایجنٹ ہے جسے یہودی اور بھارتی ایجنسیوں سے فنڈ ملتے تھے جس کا مقصد اسرائیل کو تسلیم کروانا تھا،2013کے الیکشن میں کے پی کے میں پی ٹی آئی کو حکومت دینے کا مقصد پختونکی ثقافت کو تبدیل کرنا تھا“اورپھر کہنا کہ ”پی ٹی آئی کے جسموں سے کوئی جھگڑا نہیں بلکہ ان کے دماغوں سے جھگڑا ہے وہ ٹھیک ہوجائے گا“بقول شاعر:جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر۔آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے۔مولانا کی انتخابات میں شکست اور ان کے بیانات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں۔برحال پی ٹی آئی نے ایاک نعبدوایاک نستعین سے اپنا سفر شروع کیا تھا پھر اس کو ترک کرنے بعد ”ایبسولوٹلی ناٹ“سے باقاعدہ صرف اقتدار کے حصول کے لیے ایک ناختم ہونے والی نفرت،بدتمیزی اور ہٹ دھرمی کی جنگ کی بنیاد رکھی،امریکی مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹے والی جماعت نے امریکہ کو ہی اپنی مدد کے لیے پکار لیا۔”آخر گل اپنی خاک در میکدہ ہوئی۔پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا“اسلام آباد میں متعین غیر ملکی سفرا سے پی ٹی آئی قیادت کے رابطے،عمران خان کا آخر امریکہ کو بار بار پاکستان میں مداخلت کا پیغام دے رہے ہیں کیوں؟اقتدار کی خاطر پی ٹی آئی پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو داو¿ پر لگانے کے لیے تیار ہے۔کون پوچھے ان عقل کے اندھوں سے جو کہتے تھے کہ عمران خان نے امریکہ کی غلامی سے انکار کیا تھا۔ایاک نعبدوایاک نستعین سے شروع ہونے والا سفر ”ایبسولوٹلی ناٹ“سے ہوتا ہو ا ایبسولوٹلی یس سے ہو ”اناللہ وانا الیہ راجعون“پر آچکا ہے۔