مصری وزیر خارجہ سامح شکری کو فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت اور غزہ میں اسرائیل کا جرات و پامردی سے مقابلہ کرنے والی تنظیم حماس کی مخالفت مہنگی پڑگئی.مصری عوام نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کر دیا۔سامح شکری نے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے حوالے سے میونخ سیکورٹی کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک حماس فلسطینی عوام کی قابل قبول اکثریت کی تائید نہیں رکھتی اور تشدد پہ یقین رکھتی ہے. اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی۔اسرائیل کے حق میں اور حماس کی مخالفت میں مصری وزیر خارجہ کے اس متنازع بیان نے سوشل میڈیا سائٹس پر بڑے پیمانے پر تنازعے کو جنم دیا۔
سامح شکری نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ یہاں تک کہا کہ حماس کو جوابدہ ہونا چاہیے اور ہر وہ شخص جس نے غزہ کی پٹی میں حماس کو مضبوط کرنے اور اس کی مالی معاونت کی ہے، اس کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے۔مصری وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ایک سوال یہ بھی ہونا چاہیے کہ حماس کو غزہ میں کیوں بااختیار بنایا گیا اور حماس اور باقی ماندہ فلسطینی اداروں کے درمیان تقسیم کو تقویت دینے کے لیے اسے غزہ میں فنڈز کیوں فراہم کیے گئے۔تاہم مصری وزیر خارجہ نے غزہ سے فلسطینیوں کے انخلا کی مخالفت کی اور زور دے کر کہا کہ مصر کی سرحدوں سے متصل فلسطینی علاقے سے بے گھر ہونے والوں کو نکالنا مصر کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔مصری وزیر خارجہ کی یہ گفتگو سامنے آتے ہی مصری سوشل میڈیا پر بھونچال سا آگیا۔ مصری عوام نے سخت ردعمل دیتے ہوئے وزیر خارجہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ حماس کی طاقت کو مضبوط کرنے والوں کی مذمت کرنے والے کو اس عہدے پر ہونا ہی نہیں چاہئے۔اس بحث میں عام مصری شہریوں کے ساتھ سیاستدانوں، صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے بھی حصہ لیا اور سامح شکری کے خیالات کی شدید مذمت کی اور انہیں قابض اسرائیل کا ہمنوا قرار دے دیا۔آئین پارٹی کے سابق سربراہ علاء خیام نے سامح شکری کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے انہیں شرمناک قرار دیا۔انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ شکری کا بیان صرف حکومت کی نمائندگی کرتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ شکری مصری سفارت کاری کی تاریخ میں سب سے ناکام وزیر ہیں۔انہوں نے مزید کہا شکری مصری عوام کی نمائندگی نہیں کرتا جو فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت پر یقین رکھتے ہیں۔
خیام نے سوال اٹھایا کہ ہم حماس کیخلاف واضح پوزیشن لیتے ہوئے غزہ کے بحران میں کیسے ایک منصفانہ ثالث بن سکتے ہیں؟