اسلام آباد(عترت جعفری) قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے وجود میں آنے میں اب چند دن باقی رہ گئے ہیں، سیاسی منظر نامہ بھی کم و بیش واضح ہو گیا ہے، مرکز میں حکومت جس کی بھی بنے اسے معاشی چیلنجز کیساتھ اہم سیاسی مسائل کا بھی سامنا کرنا ہوگا، معاشی چیلنجز میں بجٹ کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ پیرامیٹرز کے اندر رکھنا، برآمدات میں اضافہ، رواں مالی سال کے دوران ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے وسائل کا اہتمام، نقصان زدہ اداروں کی نجکاری اور سب سے بڑھ کر افراط زر پر قابو پانا شامل ہے، سیاسی مسائل میں حکومت کا مستحکم رہنابہت ہی زیادہ ضروری ہوگا، ماضی کا تجربہ رہا ہے پاکستان کے اندر اتحاد کے تحت بننے والی حکومتیں سیاسی بارگیننگ کی وجہ سے ہے ہم ایشوز پر بروقت فیصلے نہیں کر پاتیں ، گورننس کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، اس لئے حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ انتخابات کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنا بھی ہوگا، انتخابات کے انعقاد کے بعد بعض مغربی ممالک کی طرف سے آنے والے بیانات اور کچھ واقعات جبکہ سوشل میڈیا پر ایک سیاسی جماعت کی طرف سے چلائی جانے والی شدید مہم جوئی سے شکوک پیدا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، ایسے وقت میں چین کی وزار ت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے جو بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، وزار ت خارجہ کی ترجمان نے پاکستان میں پر امن طریقے سے عام انتخابات کے انعقاد پر پاکستانی حکومت کو مبارک باد پیش کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے بیان سے انتخابات کی ساکھ کو مجروح کرنے کی منظم کوشش میں کمی آئے گی قومی اور پنجاب اسمبلی میں ایک متحرک اپوزیشن ہوگی، اپوزیشن کی ہلکی سی جھلک گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس میں بھی نظر آئی جہاں اپوزیشن ارکان جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا، پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں اپوزیشن موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے قانون سازی کے مراحل بڑی تیزی سے طے ہو جایا کرتے تھے بلکہ ایک ایک دن میں درجنوں قانون پاس ہو جایا کرتے تھے مگر اس بار ایسا ہونا ممکن نہیں ، حکومت کو روز اول سے ہی کمیٹیوں کو موثر بنانا پڑے گا، اور اپنے ارکان کی کمیٹی اور ایوان کے اجلاسوں میں تواتر سے اور کثرت سے شرکت کو بھی یقینی بنانے کے لیے حکمت عملی طے کرنا ہوگی، ملک میں افراط زر نیچے لانے کے لیے انرجی کی قیمتوں کے حوالے سے کچھ نہ کچھ قدم اٹھانا پڑے گا، جس کے لئے اب چند روز رہ گئے ہیں نگران حکومت بعض ایسے فیصلے کر چکی ہے جن پر عمل آئندہ حکومت کے لیے ضروری ہوگا، ان میں پاور کمپنیوں اور پی آئی اے کی نجکاری کے فیصلے بھی شامل ہیں، سیاسی پارٹیوں کے لیے اپنے پروگرام کو ان فیصلوں کے درمیان ایڈجسٹمنٹ کرنا مشکل مرحلہ ہوگا۔