پشاور (نوائے وقت رپورٹ) پشاور ہائیکورٹ میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ میں عدلیہ کو تیسرا کرپٹ ادارہ شائع کرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس ابراہیم خان نے سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ عدلیہ کے معاملات میں کوئی کیسے دخل اندازی کر سکتا ہے؟ ہم کسی ادارے کو اس کی اجازت نہیں دے سکتے سوشل میڈیا پر ہمارے خلاف بھی مہم شروع ہو گئی ہمیں سیاسی جماعتوں سے منسلک کیا گیا۔ یقین سے کہتا ہوں کسی جج کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، ہم اس پر جلد آرڈر کریں گے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بورڈ کے مبر حبیب حشمت اور عدالتی معاون پروفیسر نیاز ویڈیو لنک پر شریک ہوئے۔ ممبر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بورڈ حبیب حشمت نے کہا کہ رپورٹ عوامی رائے پر مشتمل ہوتی ہے یہ ہماری رائے نہیں عدالتی معاون نیاز نے کہا کہ رپورٹ میں شائع کرنا چاہئے تھا کہ سروے میں 80 لوگوں نے عدالیہ کو کلین قرار دیا۔ چیف جسٹس ابراہیم خان نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ رپورٹ میں صرف مفروضوں پر بات ہوئی ہے۔ رپورٹ میں نہیں لکھا کہ یہ مفروضوں پر مبنی ہے اب عدالتی جواب میں انہوں نے اعتراف کر لیا۔ عدالتی معاون نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو چاہئے کہ اب وہ اپنی رپورٹ میں تمام سروے کو شائع کرے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے 9 مئی کے بعد 900 سے زائد درخواستوں کو کونسا اور قانون کے مطابق ریلیف دیا۔ عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔