سب حکومت میں ہوں پھر جھگڑا کس چیز کا؟؟؟؟؟

کیا خیبرپختونخوا ملک کا حصہ نہیں، کیا کے پی کے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں، کیا وہاں کی حکومت وفاق جڑی نہیں ہوتی۔ اگر ان سب سوالات کا جواب انکار میں ہے تو پھر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں یا پاکستان تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح سندھ کی بات کریں وہاں کے سیاست دان، شہری، افسران سب اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنا ملک کا کوئی بھی شہری ہے، یہی چیزیں اور جذبہ پنجاب اور بلوچستان کے منتخب نمائندوں،  افسران اور شہریوں پر لاگو ہوتی ہیں۔ یہ سب پاکستانی ہیں، ان کی پہلی اور آخری شناخت ہی پاکستانی ہے، ان سب کو اس ملک نے وہ سب کچھ دیا ہے جو ایک آزاد ملک کے شہریوں کو ملتا ہے، سب سے بڑھ کر آزادی کی نعمت میسر ہے، عام شہریوں کے لیے سہولیات کو دیکھتے ہوئے آپ کوئی بات ضرور کر سکتے ہیں لیکن آزادی تو سب کو حاصل ہے، آزادی کے بعد بات سہولیات کی ہے تو یہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی سہولیات کو ہٹ شہری تک پہنچانے کے لیے دن رات کام کریں اگر وہ یہ ذمہ داری نہیں نبھاتے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس دھرتی سے بھی بددیانتی کر رہے ہیں اور اقتدار جو کہ ان کے پاس امانت ہے اس میں بھی خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں، پاکستان کا ہر شہری اس ملک کا مقروض ہے اور وہ افراد جنہیں یہاں سے عزت، شہرت، دولت سب کچھ ملا ہے وہ دوہرے مقروض ہیں، منتخب نمائندوں سمیت دیگر افراد اگر اپنی ذمہ داریاں عمدہ و احسن انداز میں نہیں نبھاتے تو پھر وہ اس ملک کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی بھی کر رہے ہیں۔ 
یہ سب لکھنے کا مقصد پاکستان کے شہریوں اور بالخصوص وہ لوگ جو اہم فیصلوں میں شریک ہوتے ہوتے ہیں ان کے لیے یاددہانی ہے۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں جب آپ مختلف صوبوں میں حکومت قائم کر رہے ہیں تو پاکستان کی خاطر آئندہ پانچ برسوں تک صرف اپنا اپنا کام کریں۔ اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ "میرے خیال سے بڑی حد تک معاملات طے پاچکے ہیں، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر حکومت چلائیں گے۔ میرا اندازہ ہے بلاول بھٹو نے مجموعی طور پر تعاون،  اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کی سوچ بہت اچھی بات ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کامیاب حکومت کے لیے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کا مل کر حکومت بنانا ضروری ہے۔"
بات صرف عرفان صدیقی یا پاکستان پیپلز پارٹی کی ہرگز نہیں ہے یہاں تمام سیاسی جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری اور فرض ہے کہ سیاسی اختلافات کو بھلا کر دشمنیاں ختم کریں، سیاسی اختلاف رائے کو دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ اس ملک کو اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے، اس ملک کو نفرت اور تقسیم میں مت الجھائیں، پاکستان تحریک انصاف کو بھی ایک قدم واپس آنا چاہیے، تقسیم میں کسی کا فائدہ نہیں ہے، بالخصوص گذشتہ دو تین برسوں میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ان لڑائی جھگڑوں نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے، ملک معاشی طور پر کمزور ہوا ہے اور قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، روپیہ کمزور ہوا ہے، مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ یہ حالات دیکھ کر بھی سیاست دان اپنی اپنی دکانیں بند کر کے صرف پاکستان کی بہتری کا نہیں سوچیں گے تو پھر سب کی سیاست کو سب سے پہلے خطرہ ہو گا کیونکہ بہت زیادہ دیر تک یہ سیاسی تقسیم اور نفرت چل نہیں سکتی، ملک نے تو آگے بڑھنا ہے سیاست دانوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے سیاسی نظام کو آگے بڑھانا ہے یا نہیں۔ پاکستان اس وقت بحران میں ہے اور یہ کوئی چھوٹا بحران نہیں، تمام سیاسی جماعتیں اس نظام میں ذمہ دار اہمیت کی حامل ہیں۔ ان سب کو ہر وقت الزام تراشیوں میں وقت گذارنے اور ہر وقت سڑکوں پر بیٹھنے کے بجائے لوگوں کو فیکٹریوں،  کارخانوں اور نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں مصروف رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ یاد رکھیں موجودہ بحران باہمی تعاون، ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا تقاضا کرتا ہے۔ صرف سیاسی اختلافات کی وجہ سے کسی بھی جماعت کا راستہ روکنا پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے کے مترادف ہے۔
 جنہیں صوبوں میں وزارت اعلی کا موقع مل رہا ہے وہ اپنے صوبوں میں عوام کی خدمت کریں اور جنہیں وفاق میں موقع مل رہا ہے وہ مجموعی طور پر ملک و قوم کی خدمت کو اپنا ہدف بنائیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ خیبر پختون خوا میں حکومت بنائیں مرکز میں عقل و شعور سے کام لے کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، غیر ضروری مزاحمت اور بیان بازی سے گریز کریں، مظاہروں، احتجاج سے صرف نقصان ہونا ہے اگر مزید نقصان کرنا ہے تو سڑکوں پر آئیں لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ ہر وقت رونا دھونا اور منفی سیاست ہر وقت برداشت نہیں ہوتی۔ قومی اسمبلی میں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کام ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی قائدین اس فورم کو صرف اور صرف ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے لیے استعمال کریں اور گھنٹوں ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ملک و قوم کا وقت اور سرمایہ ضائع کرتے رہیں۔
آخر میں عادل اسیر دہلوی کا کلام
کیسے بنائی تو نے یہ کائنات پیاری
 حیران ہو رہی ہے عقل و خرد ہماری
 کلیاں مہک رہی ہیں اعجاز ہے یہ تیرا 
خوشبو کہاں سے آئی اک راز ہے یہ تیرا 
بلبل کے چہچہوں نے حیران کر دیا ہے
 انساں کے قہقہوں نے حیران کر دیا ہے 
ششدر ہوں دیکھ کے میں اڑتے ہیں کیسے پنچھی 
دریا میں دیکھتا ہوں جاتے ہیں کیسے مانجھی 
کس طرح بے ستوں یہ تو نے فلک بنایا 
آنچل کو تو نے اس کے باروں سے جگمگایا 
کس طرح کی ہیں پیدا برسات کی گھٹائیں
 کس طرح چل رہی ہیں پر کیف یہ ہوائیں 
دریا پہاڑ جنگل کس طرح بن گئے ہیں
 یہ بات عقل والے ہر وقت سوچتے ہیں 
کس طرح تو نے مولا انسان کو بنایا 
اکثر میں سوچتا ہوں کیسا ہے تو خدایا

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...