تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی 5 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تاحیات نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ۔آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاست دانوں کی نااہلی کیس کا 53 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی 5 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاناما کیس فیصلے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت سپریم کورٹ براہ راست کسی امیدوار کی اہلیت کا تعین کیسے کر سکتی ہے؟ کسی امیدوار کو نااہل کرنے میں عدلیہ کو انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت 5 سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی، آرٹیکل 62 ون ایف میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی امیدوار کے کردار کو جانچنا عدالتوں کا کام نہیں بلکہ جمہوری معاشروں میں یہ کام ووٹر کا ہے، نہ آئین میں اور نہ ہی کسی قانون میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کورٹ آف لا کونسا عدالتی فورم ہوگا جو ڈیکلریشن دینے کا مجاز ہوگا۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لا کیا ہے، آرٹیکل باسٹھ ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلیئریشن کس نے دینی ہے، ایسا قانون نہیں جو واضح کرے کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلے میں شامل ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ لکھا ہے کہ ’’تاحیات نااہلی ختم کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مستقل یا تاحیات نہیں بلکہکورٹ آف لا کی ڈیکلیئریشن تک محدود ہے‘‘۔جسٹس منصور علی شاہ کا اضافی نوٹ بھی تفصیلی فیصلہ کا حصہ ہےجس میں کہا گیا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کی ڈیکلیئریشن دے کر آئین بدلنے کی کوشش کی ، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نااہلی کی مدت پانچ سال سے زائد نہیں ہوسکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھاہے کہ عدلیہ کوآئین و قانون کے تحت فیصلے کرنے چاہیں۔

ای پیپر دی نیشن