کبھی اس بات میں شک نہ کریں کچھ تصورات کے ساتھ سامنے آنے والے تخلیقی لوگ یہ دنیا تبدیل کر سکتے ہیں کیونکہ تاریخ انسانی اس بات کی سچائی پر گواہ ہے۔ یہ دنیا آج بھی اُنہی لوگوں کی بدولت آباد ہے! یہ دنیا آج بھی نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز روا رکھتی ہے اور ’خیر‘ اور ’شر‘ میں تمیز کرنے کی اہل ہے! حالات سے بے دل ہو کر بے حس ہو جانے سے کہیں بہتر ہے کہ حالات کے سُدھار کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہیں‘ کوئی نہ کوئی بات کہتے رہیں! مگر خیال رہے کہ بات آپ کے دل سے نکلتے ہی سیدھی سُننے والے کے دل میں اُتر جائے لیکن کریں اس طرح کہ جناب شیخ رشید تک نہ پہنچ پائے مگر ان کے اطراف میں چکراتی ضرور رہے اور جناب شیخ رشید اسے دوہرائیں بھی تو اس کا حلیہ اتنا بگڑ جائے کہ وہ بات نہ آپ کے نام سے منسوب ہو پائے اور نہ جناب شیخ رشید احمد کے کام آ پائے!جناب آصف علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے طور پر بات کرتے ہیں تو بات اُلجھتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ اُلجھی ہوئی لٹ کی طرح پکارا اُٹھتی ہے ہے ’لٹ اُلجھی سلجھا جارے! بالم!‘ مگر جناب سلمان تاثیر اُنہیں صدرِ مملکت ہونے کے ناتے ’کنگھا‘ بھی نہیں پیش کر پائے کہ اگر انہوں نے کڑا اور کرپان بھی طلب کر لیا تو وہ بے چارے اب وہ سب کچھ کہاں سے لا پائیں گے!
جناب آصف علی زرداری کی لٹ کا الجھا¶ فیصل آباد کی طرف منزلیں مارتا نکلا تو اہلِ لاہور جناب حبیب جالب کا شعر گنگناتے گھروں سے سڑکوں پر آ گئے :
اُس لٹ کا اُلجھا¶ گیا ایک بلا تو سر سے ٹلی
ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ’سلطان زرداری‘ اور ’سلمان پیزاری‘ کے درمیان پیار ہی پیار میں منہ ماری بھی جاری رہے اور کبوتروں کا یہ جوڑا اُڈاری مار کر ’فیصل آباد‘ میں آباد ’لیل پُر‘ کی چھتری پر جا بیٹھا! ’لیل پُری‘ بولی لگانے سے نہیں ٹلتے اور پورا فیصل آباد : کوٹھے تے لگائی چھتری‘ منڈا ویکھ کبوتر ورگا! گا گا کے سارے ’گاما‘ ہو گیا!
لاہور کے جیالے اور متوالے آپس میں ’تبادلہ خیال‘ کر رہے ہوں تو سُننے والے گھبرا جاتے ہیں شاید فائرنگ کے تبادلے پر فیصل ہو گی! مگر اذانِ فجر کے ساتھ ہی‘ یہ ’مقابلہ‘ اگلے روز پر دوبارہ شروع ہونے کے وعدے کے ساتھ ختم ہو جاتا اور اگلی رات ’جیالے‘ یہ وعدہ پورا کر کے ’متوالوں‘ کو ایک بار پھر حیران کر دیتے ہیں! شاید اسی تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ پی پی پی کے ’جیالے‘ اور پاکستان مسلم لیگ کے ’متوالے‘ فطری اتحادی ہیں کہ ہمارے ہاں ’میاں بیوی‘ کا فطری اتحاد بھی ’کھٹ پٹ‘ سے ہی عبارت گردانا اور مانا جاتا ہے!
فیصل آباد میں جناب آصف علی زرداری کی تقاریر کا زور بڑھ چکا ہو گا کیونکہ فیصل آباد کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے لئے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ’جیالوں‘ میں ’اعتماد کی ہَوا‘ بھری جانا ضروری ہے ورنہ فیصل آباد میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے چاروں ٹائر چاروں شانے چت پڑے ہیں!
ہم نے بہت سے متوالوں کو بہت سمجھایا کہ جیالوں سے ’گفتگو‘ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ’جیالے‘ کی سطح پر اُترے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی اور ’جیالے‘ کے سطح پر اتر آنے کے بعد نہ آپ کے پاس جائے ماندن ہوتی ہے نہ پائے رفتن کے لئے راستہ موجود رہ جاتا ہے اور اب میدان اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے! ارینا‘ یا‘ اکھاڑے میں اپنا کونا چھوڑنا اور دوسرے کے کونے میں پہنچ جانا ہمیشہ ’خطرناک‘ ثابت ہوتا ہے! اگر وہ مذاق مذاق میں ہی آپ کو وہاں کھینچ لے جاتے ہیں تو ’اذانِ فجر‘ سے پہلے جان چھوٹنا ممکن نہیں رہ جاتی!
آپ ’متوالے‘ ہیں تو ’جیالوں‘ کو آئینہ گردانیں اور جان لیں کہ جناب مسعود صدیقی کہہ چکے ہیں!
آئینوں سے مذاق مت کرنا
آئینوں کو ہنسی نہیں آتی
جناب آصف علی زرداری کی لٹ کا الجھا¶ فیصل آباد کی طرف منزلیں مارتا نکلا تو اہلِ لاہور جناب حبیب جالب کا شعر گنگناتے گھروں سے سڑکوں پر آ گئے :
اُس لٹ کا اُلجھا¶ گیا ایک بلا تو سر سے ٹلی
ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ’سلطان زرداری‘ اور ’سلمان پیزاری‘ کے درمیان پیار ہی پیار میں منہ ماری بھی جاری رہے اور کبوتروں کا یہ جوڑا اُڈاری مار کر ’فیصل آباد‘ میں آباد ’لیل پُر‘ کی چھتری پر جا بیٹھا! ’لیل پُری‘ بولی لگانے سے نہیں ٹلتے اور پورا فیصل آباد : کوٹھے تے لگائی چھتری‘ منڈا ویکھ کبوتر ورگا! گا گا کے سارے ’گاما‘ ہو گیا!
لاہور کے جیالے اور متوالے آپس میں ’تبادلہ خیال‘ کر رہے ہوں تو سُننے والے گھبرا جاتے ہیں شاید فائرنگ کے تبادلے پر فیصل ہو گی! مگر اذانِ فجر کے ساتھ ہی‘ یہ ’مقابلہ‘ اگلے روز پر دوبارہ شروع ہونے کے وعدے کے ساتھ ختم ہو جاتا اور اگلی رات ’جیالے‘ یہ وعدہ پورا کر کے ’متوالوں‘ کو ایک بار پھر حیران کر دیتے ہیں! شاید اسی تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ پی پی پی کے ’جیالے‘ اور پاکستان مسلم لیگ کے ’متوالے‘ فطری اتحادی ہیں کہ ہمارے ہاں ’میاں بیوی‘ کا فطری اتحاد بھی ’کھٹ پٹ‘ سے ہی عبارت گردانا اور مانا جاتا ہے!
فیصل آباد میں جناب آصف علی زرداری کی تقاریر کا زور بڑھ چکا ہو گا کیونکہ فیصل آباد کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے لئے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ’جیالوں‘ میں ’اعتماد کی ہَوا‘ بھری جانا ضروری ہے ورنہ فیصل آباد میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے چاروں ٹائر چاروں شانے چت پڑے ہیں!
ہم نے بہت سے متوالوں کو بہت سمجھایا کہ جیالوں سے ’گفتگو‘ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ’جیالے‘ کی سطح پر اُترے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی اور ’جیالے‘ کے سطح پر اتر آنے کے بعد نہ آپ کے پاس جائے ماندن ہوتی ہے نہ پائے رفتن کے لئے راستہ موجود رہ جاتا ہے اور اب میدان اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے! ارینا‘ یا‘ اکھاڑے میں اپنا کونا چھوڑنا اور دوسرے کے کونے میں پہنچ جانا ہمیشہ ’خطرناک‘ ثابت ہوتا ہے! اگر وہ مذاق مذاق میں ہی آپ کو وہاں کھینچ لے جاتے ہیں تو ’اذانِ فجر‘ سے پہلے جان چھوٹنا ممکن نہیں رہ جاتی!
آپ ’متوالے‘ ہیں تو ’جیالوں‘ کو آئینہ گردانیں اور جان لیں کہ جناب مسعود صدیقی کہہ چکے ہیں!
آئینوں سے مذاق مت کرنا
آئینوں کو ہنسی نہیں آتی