”امن کی آشا“ وقت گزارنے کی مہم ہے‘ بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے : عسکری ماہرین

لاہور (سلمان غنی) امن کی آشا نامی مہم کو عسکری ماہرین پاکستان کے قومی مفادات اور تنازعات کے حل سے پہلوتہی کی منظم کوشش قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل کے بغیر علاقائی امن ممکن نہیں۔ ریٹائرڈ جنرل راحت لطیف نے امن کی آشا مہم کو وقت گزاری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایجنڈا کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان مسائل اور تنازعات کا حل نہیں بلکہ سٹیٹس کو جاری رکھنا اور کشمیر کے مسئلے سے پہلوتہی برتنا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کی آشا مہم چلانے والے ذرا ہندوستان کے حکمرانوں سے پوچھیں کہ کیا وہ واقعتاً امن چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علاقائی صورتحال میں امن و امان کا سب سے بڑا دشمن ہندوستان اور اس کا توضیح پسندانہ طرزعمل ہے۔ جب تک وہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل پر نہیں آتے‘ یہ امن کی آشا نہیں چل سکے گی۔ وہ نوائے وقت سے خصوصی بات چیت کررہے تھے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ امن و استحکام ہمیشہ دو پارٹیوں‘ دو ملکوں اور دو گروہوں کے درمیان مثبت طرزعمل کے ذریعے ممکن ہوتا ہے لیکن ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا بلکہ اس نے پاکستان کو اندرونی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے کوششیں جاری رکھیں۔ پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کے اقدامات سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کیلئے نرم گوشہ رکھنا خود اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج امن کی آشا جیسی سپانسرڈ مہمات کا مقصد کشمیر اور خصوصاً آنیوالے حالات میں پانی کے بحران پر پیش بندی ہے۔ ہندوستان نے پاکستان کے پانی پر ڈیم بناکر ڈاکہ مارا اور حالات یہ ہیں کہ جب بھی ان سے مذاکرات ہوئے‘ ناکام ہوئے۔ سرکریک‘ سیاچن‘ وولر بیراج سمیت دیگر ایشوز سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی آراءاور مرضی سے طے نہیں ہوتا‘ خطہ میں استحکام نہیں آسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک وہی دیرپا اور موثر ہوتی ہے جس کی اٹھان اندر سے ہو اور جو تحریکیں اور مہمات سپانسرڈ ہوں‘ پیسہ کسی کا‘ ایجنڈا کسی کا اور مقاصد کسی کے ہوں تو ایسی مہمات دم توڑ جاتی ہیں۔ امن کی آشا نام تو خوبصورت ہے لیکن ایسی مہمات چلانے والوں کی بدنیتی ڈھکی چھپی نہیں۔ جنرل راحت لطیف نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی قوتیں علاقائی امن کیلئے بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی کا علاج کریں اور اسے مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل کی طرف لائیں‘ تبھی علاقائی امن قائم ہوسکتا ہے۔علاوہ ازیں منگلا کے سابق کورکمانڈر جنرل غلام مصطفی خان نے امن کی آشا مہم کو مکمل ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے 62 سال مذاکرات اور امن کی بات ہماری جھولی میں کیا آیا۔ یہ امن کے آشا کی بات اس لئے شروع کی جا رہی ہے کہ آنیوالے حالات میں پانی کا بحران بڑا مسئلہ بننے والا ہے۔ اس سے ہندوستان اور پاکستان میں تناﺅ آئیگا اور غالباً اس کی پیش بندی کیلئے پہلے سے ہی یہ امن کی آشا کی بات کی جا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت نہ امن پر یقین رکھتا ہے اور نہ مذاکرات اور تعلقات پر‘ وہ طاقت کے نشے میں مدہوش ہر مسئلہ کا طاقت کے ذریعے حل چاہتا ہے۔ غاصبانہ قبضے اور توسیع پسندانہ عزائم اس کی پہچان ہے لہٰذا ہماری حکومت کو چاہئے کہ اب مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے اپنے مفادات پر سٹینڈ لے اور دنیا کو بتائے کہ اگر بھارت نے طرزعمل تبدیل نہ کیا تو ہم بھی طاقت کا استعمال کرینگے۔

ای پیپر دی نیشن