دھرنا ایک پہیلی


پچھلا پورا ہفتہ ملک میں انتشار اپنے عروج پر اور احتجاج اپنے شباب پر رہا۔ صنعت کا پہیہ گیس اور بجلی کی کمی کے سبب پہلے ہی رُکا ہوا تھا جو تھوڑی بُہت کسر تھی وہ کوئٹہ کے سانحہ، پشاور کے حادثہ اور تبلیغی جماعت پر حملہ نے پوری کر دی تھیں۔ سانحہ کوئٹہ کے باعث بلوچستان کی جمہوریت اور حکومت کے بھی پرخچے اڑ گئے اور کھلا راز مزید کھل گیا تھا کہ تساہل پسندی و اقربا پروری نے بلوچستان میں کیا گل کھلائے۔ یوں پہلا سوال اور سوالیہ نشان جمہوریت کے ماتھے پر یہ کندہ ہوا۔ دوسرا جو سوال جمہوریت اور حکومتی بصیرت کے ماتھے پر عیاں ہوا، وہ لانگ مارچ کا نتیجہ اور معاہدہ تھا۔ تیسرا سوال منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے ماتھے پر سوالیہ نشان بن کر اُبھرا!!
م¶رخ اور دانشور جنوری کے پہلے تین ہفتوں کے بھنور اور گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور پھنسی ہوئی اس قوم کے ماضی و حال ومستقبل کا جائزہ لے کر انتہائی پریشان ہے اگر محقق کار کی تحقیقات کو ایک جملے میں بیان کیاجائے، تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ ”غلطیوں کا قلع قمع کرنے کے بجائے برے سے برے کو برا بھلا کہلانے کی سیاست اور روش عام ہو گئی ہے!!! ”اس کلیے اور فارمولے سے بناﺅ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا بلکہ بگاڑ کا در وا ہو گا۔ بہر حال آج کا اہم نکتہ ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ ہے۔ لانگ مارچ کی تعریف و توصیف میں اگر کچھ کہنا ہو، تو اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کوانٹٹی کے اعتبار سے یہ لانگ مارچ اور دھرنا انتہائی کمزور جبکہ کوالٹی کے حوالے سے انتہائی شاندار اور جاندار رہا۔ جہاں تک اس قادری مارچ کے نتیجے کی بات ہے، تو اس ضمن میں یہ کہہ دینا کافی ہو گا ، دھرنا ایک پہیلی کے سوا کچھ نہیں دے سکا۔ پہیلی بھی ایسی سہ جہتی کہ اللہ اللہ تکنیکی اعتبار سے لانگ مارچ اور دھرنا میں جو سب سے بُری چیز تھی وہ یہ کہ تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد ایک نئی وارننگ دی جاتی۔ ایک مطالبہ پورا نہ ہوتا تو دوسرا مطالبہ داغ دیا جاتا۔
 پرانے زمانے میں ایک معروف اسلحہ ہوا کرتا تھا جس کی موجودگی سے یہ پتہ چلتا تھا کہ، اسے رکھنے والا بندہ خطرناک ہے۔ وہ اسلحہ ”گراری“ والا چاقو تھا۔ وہ کڑکڑ کرتا کھلتا تھا اور سامنے والا بندہ خبر دار ہو جاتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس طرح ”گراری“ والے چاقو کی طرح ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کھلتے جاتے تھے لیکن یہ دور چاقو کو ماننے والا نہیں۔ یہ درست ہے کہ چاقو آج بھی ایک خطرناک ہتھیار ہے اگر اسے دانشمندانہ طور طریقے سے استعمال کیا جائے۔
 بہر حال اچھا استعمال بھی چاقو کو فتح مبین کا ذریعہ قرار نہیں دے سکتا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت کی گردن پر ”گراری“ والا چاقو رکھ کر اپنے آپ کو کسی حد تک منوا لیا ہے۔ ہاں ڈاکٹر صاحب کو بلے بلے بلے ضرور مل گیا۔ آہ! کاش ہم اور ہمارے سیاستدان ذاتی بلے بلے کے بجائے قوم کے بلے بلے کو ترجیح دے۔
راقم نے کچھ دن قبل اس لانگ مارچ کو ”ایک ملاقات کی مار“ قرار دیا تھا۔ حکومت کی جانب سے اگر ملاقات (ایک سنجیدہ ملاقات) میں دیر کی گئی ہے تو اس میں قصور ڈاکٹر طاہر القادری کا نہیں، حکومت کا ہے۔ اتنے دن اگر اسلام آباد کے معاملات جام رہے ہیں تو گنہگار حکومت ہے کوئی اور نہیں۔ راقم نے گزارش کی تھی کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے اگر ایک ملاقات کر لی، تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن ہم نے بھی شاید بڑی بات کہہ دی تھی ملاقات کے بجائے ایک ”ٹیلی فونک ملاقات“ ہی کافی نکلی۔
حالانکہ اس ٹیلی فونک ملاقات میں میاں صاحب کے بھائی عباس شریف کی وفات پر اظہار تعزیت ہی کیا گیا تھا۔ چشم بینا رکھنے والے اس بات سے ہمیشہ آشنا رہے ہیں کہ جلدی میں کئے گئے کام اور ان کے نتائج پائیدار نہیں ہوتے۔ پائیدار کام کےلئے ضروری ہوتا ہے کہ سمجھ سوچ کر قدم اٹھایا جائے اور سیاسی امور میں بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم نوا بڑھائے جائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اگر ہمنوا نہ بڑھائے جائیں تو گرفت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے ساتھ صرف ان کے مرید تھے یا ان کی تنظیم کے سکول و کالج کے طلبا اور اساتذہ شامل تھے۔ تحریک انصاف کے لوگوں کا دل کرتا تھا کہ احتجاج میں شامل ہوں لیکن عمران خان نے اس لئے اپنے کارکنان کو روک دیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کہیں عمرانی سیاست کو ہائی جیک نہ کر لیں۔ لانگ مارچ اور دھرنا کے اعلان اور آغاز ہی سے سب ثابت ہو گیا تھا کہ کھیل میں دلچسپی اور کمنٹری ضرور ہو گی لیکن فتح نہیں”سپورٹس مین“ جانتے ہیں کہ میچ فکس بھی ہو لیکن دلچسپ ضرور ہوتا ہے، بعض اوقات زیادہ دلچسپ ہوتا ہے۔
راقم اساتذہ سے ملاقات کے بعد یہ کہنے کے قابل بھی ہو گیا تھا کہ قادری اقدام کے باعث سب اکٹھے ہو جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ رائے ونڈ میں ہونے والے اپوزیشن کے اجلاس میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کے اکٹھے بیٹھ جانے والی ”رویت ہلال کمیٹی“ نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ اس اجلاس سے ایک طرف قادری مارچ کے غبارے سے ہوا نکل گئی، تو دوسری جانب مستقبل کی انتخابی سیاست کا رخ متعین ہو گیا۔
ہمارا تو خیال ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن اگر ایم ایم اے میں اکٹھے نہیں ہو سکتے (جس طرح جماعت اسلامی شوریٰ نے فیصلہ بھی کر لیا) تو ن لیگ کے ساتھ اتحاد تو ممکن ہے۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کا ارادہ تو واضح دکھائی دے رہا ہے سوائے ایم کیو ایم کی طلسمی سیاست کے، ایم کیو ایم کا اتحاد تو ڈسپوز ایبل ہو سکتا ہے لیکن دیگر نہیں۔ رائے ونڈ اجلاس میں تحریک انصاف کو مدعو نہ کرکے بھی اگلی سیاسی کہانی ساری بیان کر دی۔ گویا اگلے الیکشن کے لئے میدان کے ساتھ ساتھ ٹیموں کا اعلان بھی ہو گیا۔ قادری مارچ نے قوم کو کچھ نہیں دیا لیکن کئی”سیاسی کُبوں“ کو لات ضرور راس آ گئی ہے۔ ہاں ن لیگ کی جانب سے ایک بیان اپنے اندر بہت زیادہ راز اور معانی چھپائے ہوئے تھا کہ ”حکومت کو طاہر القادری کی شکل میں ایک اور اتحادی مل گیا“ جانے یار لوگوں کو یاد ہے کہ نہیں۔ ماضی میں جماعت اسلامی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو لاگو کرنے کےلئے پچھلی صدی کے آخری عشرے کے پہلے انتخاب کا بائیکاٹ بھی کیا تھا لیکن نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔
رہی یہ شرط کہ قادری صاحب کی بات کو منظور کر لیا کہ نگران حکومت میں ان کی بھی مرضی ہو گی۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ 50فیصد جو حکومتی اتحادیوں کی چلنی تھی اس میں ڈاکٹر قادری کا بھی اضافہ ہو گیا باقی 50فیصد مرضی تو اپوزیشن لیڈر ہی کی چلنی تھی اور چلنی ہے۔ افسوس کہ لانگ مارچ کا نتیجہ کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق ہی رہا تاہم لانگ مارچ کے شرکا کا عزم اور صبر یقیناً قابل ستائش ہے مگر ان کے لیڈر کا نہیں! لیکن اس لانگ مارچ اور دھرنا پہیلی سے کوئی اپنا اپنا نتیجہ بھی نکالنا چاہئے تو ماشاءاللہ دھرنا پہیلی سہ جہتی ضرور تھی!

ای پیپر دی نیشن