شیخ الاسلام حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے طویل لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران اسلام آباد ڈی چوک میں اپنی مقررانہ اور خطیبانہ صلاحیتوں کے جادو جگانے ، اپنے فیوض و برکات اور کشف و کرامات کے جلوے دکھانے ، ہزاروں مرد و خواتین اور بچوں پر مشتمل اپنے عقیدت مندوں کوکھلے آسمان تلے شدید موسم اور سخت سردی کی صعوبتوں سے دوچار کرنے ، خود پرتعیش اور جدید سہولتوں سے آراستہ بم پروف کینٹینرمیں استراحت فرمانے کے بعد بالآخر کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑھتے ، فتح و ظفر کے شادیانے بجاتے اور” اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن “ کے پھریرے لہراتے عازم لاہور ہوچکے ہیں۔ پوری قوم نے سکھ کا سانس لیا ہے کہ کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا ہے ۔ کوئی قیمتی جانیں ضائع نہیں ہوئی ہیں۔ لال مسجد کی طرح کا کوئی سانحہ وقوع پذیر نہیں ہوا ہے ۔ اس پر رب کریم کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔
شیخ الاسلام کا لانگ مارچ اور دھرنا پاکستان کی تاریخ میں یقینا مدتوں یاد رہے گا۔ اسے اگر بیک وقت طربیہ اور المیہ پہلو رکھنے والے کئی ایکٹ پر مشتمل طویل دورانیہ کے ایسے ڈرامے کا نام دیا جائے جس کا سکرپٹ بڑی مہارت اور فنی چابک دستی سے تیا ر کیا گیا تھا اور جس کے ایکٹرز پس پردہ اور پلے بیک کردار ادا کرنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس طرح کے ڈراموں کے ہٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فلاپ ہونے کے مواقع Chancesبھی یکساں ہوتے ہیں۔ بھلا ہو چوہدری شجاعت حسین کا اور کچھ کچھ ایم کیو ایم کا کہ انہوں نے اسے پوری طرح فلاپ ہونے سے ہی نہیں بلکہ المیہ روپ اختیار کرنے سے بھی بچا لیا ہے۔ ورنہ اس وقت تک اس ڈرامے کے جتنے بھی ایکٹ سامنے آئے ہیں وہ ایک سے ایک بڑھ کر ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام کا ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کے پرکشش نعرے کے ساتھ زبردست تشہیری مہم کے جلو میں کنیڈا سے پاکستان تشریف لانا ، مینار پاکستان پر عظیم الشان جلسے کا انعقاد ، حضرت شیخ الاسلام کا دو ٹوک خطاب ، مطالبات کی منظوری کے لئے ڈیڈ لائن اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی دھمکی ، ایم کیو ایم اور چوہدری برادران کی طرف سے حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور انکے مطالبات کی حمایت ، پیپلز پارٹی کا حضرت شیخ الاسلام کے مبہم ، متضاد اور بظاہر آئینی شقوں سے متصادم مطالبات کے بارے میں چپ سادھے رکھنا ، حضرت شیخ الاسلام کا یہ تاثر دینا جیسے انہیں ماورا طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور پھر لاہور سے اسلام آباد تک بغیر کسی روک ٹوک کے لانگ مارچ ، انتظامیہ کی رضامندی سے پارلیمنٹ ہاﺅس اور ایوان صدر کے سامنے ڈی چوک تک لانگ مارچ کی رسائی ، کم و بیش ساٹھ ستر گھنٹوں تک حضرت شیخ الاسلام کے حامیوں اور عقیدت مندوں کا دھرنا دیے رکھنا ، انہیں ہر طرح کا فری ہینڈ ملنا اور آخر کار حضرت کے ساتھ مذکرات کا ڈوول ڈالنا اور ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن “ کے نام پر فیس سیونگ (Face Saving) قسم کا معاہدہ طے پانا ایسے پہلو ہیں جن سے لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ”مکا مکاﺅ“ ضرور ہوا ہے ۔ کہیں نہ کہیں خزانوں کے منہ ضرور کھلے ہیں ورنہ ”پاکستان عوامی تحریک“،” تحریک منہاج القران“ ، حضرت شیخ الاسلام اور انکے عقیدت مند پہلے بھی ادھر ہی تھے ۔
خیر یہ باتیں اپنی جگہ دیکھنا یہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام کے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے اور انکے حکومتی اتحاد کے ساتھ طے پاجانے والے معاہدے کے قومی زندگی اور آئندہ کے ملکی سیاسی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوںگے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کے حضرت شیخ الاسلام کے ملکی سیاست کو کرپشن ، بدعنوانی اور لوٹ مار سے پاک کرنے ، انتخابی امیدواروں کے لئے آئین کی دفعات 62،63اور 218ذیلی شق III کی پابندی لازمی قرارد دینے ،انتخابی اصلاحات نافذ کرنے ، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر پوری طرح عمل درآمد کرنے اور غیر جانبدار نگران حکومت قائم کرنے کے مطالبات کو عوام میں بڑی پذیرائی ملی ہے۔ اور انکے انداز سیاست سے اتفاق نہ رکھنے والے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ حضرت شیخ الاسلام جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے اور ان سب باتوں پر عمل ہونا چاہئے ۔ بدھ کو حضرت شیخ الاسلام نے جو پونے چار گھنٹے خطاب کیا اور اپنے مطالبات کے حق میں جو دلائل دیے یقینا لوگوں نے اس سے گہرا اثر قبول کیا ۔ میری کئی ایسے لوگوں سے بات ہوئی جو حضرت شیخ الاسلام کے کبھی بھی مداح نہیں رہے لیکن وہ بھی حضرت شیخ الاسلام کے خیالات اور دلائل سے متاثر اور اس بات کے حامی نظر آئے کہ تبدیلی آنی چاہئے اور باری کی یا ” مکا مکاﺅ “ کی سیاست ختم ہونی چاہئے۔ لیکن اسی دن یہ اہم بات بھی ہوئی کہ میاں نواز شریف کی تحریک پر جاتی عمرہ لاہور میں مسلم لیگ ن کے علاوہ جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت اہلحدیث ، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی گروپ) ، مسلم لیگ ہم خیال ، مسلم لیگ فنگشنل کے قائدین اور بلوچستان سے نواب زادہ طلال بگٹی اور محمود خان اچکزئی وغیرہ شامل تھے کا اجلاس منعقد ہوا جس میں دس نکات پر اتفاق رائے کرتے ہوئے آئین اور جمہوری نظام سے غیر متزلزل وابستگی اور کسی بھی ماورائے آئین یا غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کا اعادہ کیا گیا اس سے جہاں جمہوریت پر یقین رکھنے والی طاقتوں کو حوصلہ ملا وہاں عمران خان جو حضرت کے دھرنے سے ہمدردی رکھتے ہوئے اس میں شرکت کے خواہاں تھے وہ بھی یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کے وہ کسی بھی غیر آئینی طریقہ کار کے حق میں نہیں ہیں۔
سیاسی میدان میں اس پیش رفت کے یقینا دور رس نتائج سامنے آئیںگے تاہم یہ نتیجہ تو سامنے آچکا ہے کہ شیخ الاسلام ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن “ پر دستخط کرنے کے بعد حکومتی اتحاد کا حصہ بن چکے ہیں اورانہوں نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار میں شریک مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے ساتھ ایکا کر لیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کے شیخ الاسلام سے عقیدت رکھنے والوں اور انکے حامیوں کے مسلم لیگ ن سے فاصلے مزید بڑھ جائیں گے اور آئندہ انتخابات میں وہ مسلم لیگ ن کے کٹر مخالفین کا کردار ادا کریں گے۔
جہاں تک ڈیکلریشن میں طے پانے والے فیصلوں کا تعلق ہے حضرت شیخ الاسلام یہ دعوی ٰ نہیں کرسکتے کہ وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان فیصلوں سے حضرت شیخ الاسلام اور انکے عقیدت مندوں کی محض اشک شوئی کی گئی ہے تو یہ کوئی ایسے غلط بات نہیں ہوگی۔ اسمبلیوں اور الیکشن کمیشن کی فوری تحلیل کے حضرت کے مطالبات کو پذیرائی نہیں ملی ہے۔ بلکہ اس کے لئے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نگران وزیر اعظم کے طور پر دو ناموں پر حکمران اتحاد اور پاکستان عوامی تحریک کی مشاورت اور اتفاق رائے کا فیصلہ بظاہر اس سے حضرت شیخ الاسلام کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ بھی ایک طرح کا لولی پاپ ہے جس سے حضرت کے دل کو بہلایا گیا ہے ۔ ورنہ پاکستان عوامی تحریک یعنی حضرت شیخ الاسلام اور حکومتی اتحاد کے اتفاق رائے سے دو نام چن لئے جاتے ہیں تو تب بھی وہ نام اپوزیشن لیڈر کو بھیجے جائیں گے اور ضروری نہیں کے اپوزیشن لیڈر ان پر اتفاق کرلے۔ ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن “ میں انتخابی امیدواروں کی آئین کی دفعات 62،63اور 218کے تحت اہلیت کی جانچ پڑتال کرنا اور اسکے لئے ایک ماہ کا عرصہ رکھنا یقینا ایک اہم پیش رفت ہے جسکا کریڈٹ حضرت شیخ الاسلام کو دیا جاسکتا ہے۔ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ ہماری قومی زندگی میں بد عنوان ، نااہل ، بددیانت اور جعلی ڈگری کے حامل افرادکی مداخلت کا راستہ روکا جاسکے گا۔
طربیہ ڈرامے کا المیہ انجام
Jan 20, 2013