اتوار،7 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘20 جنوری2013 ئ


”انتہا پسند بھارت ہے“ مشرف کے جوابات پر بھارتی اینکر پرسن بھاگ گیا۔
پرویز مشرف نے زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی اچھا کام کیا ہے۔بھارتی اینکر پرسن کی بولتی بند ہوگئی اور وہ دُم دبا کر بھاگ کھڑا ہوا،مشرف کا جواب بہترین تھا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی رَٹ لگاتا رہتا ہے لیکن شیو سینا کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کے ہاتھ جلتے ہیں۔ مشرف نے فوج کی نوکری حلال کردی ہے،کارگل پربات اگر کرنی ہے تو بنگلہ دیش سے شروع کی جائے اور دہشت گردوں کیخلاف کارروائی پر بات کرنی ہے تو پہلے شیوسینا کو لگام ڈالی جائے۔ پاکستان کی ہاکی ٹیم واپس آچکی ہے جبکہ خواتین کرکٹ ٹیم کے میچ بھی منتقل ہوچکے ہیں ،یہ سب کچھ بھارتی انتہا پسند تنظیم شیو سینا کی دھمکیوں کے بعد ہوا ہے۔آج تک کسی بھی پاکستانی تنظیم نے بھارتی ٹیم کو دھمکیاں دی ہیں نہ ہی کبھی ایسا واقعہ ہوا۔بھارتی میڈیا کو پاکستان پر الزام تراشی کرنے کی بجائے اپنی ”منجی تھلے ڈانگ“ پھیرنی چاہئے۔مشرف نے بھارتی اینکر پرسن کو آڑے ہاتھوںلیا ہے،ہمارے ہاں تو ایک واقعہ کو نکال کرباقی ہر دفعہ مہمان ہی سیٹ چھوڑ کر چلے جاتے ہیںلیکن بھارتی اینکر سیٹ چھوڑ کر بھاگا۔قارئین معذرت کے ساتھ مشرف کو آج داد دینی پڑی۔
٭....٭....٭....٭
100قتل کیسز میں قید اجمل پہاڑی رہا۔
 کراچی میں گرتے لاشے کیوں تھمیں جب پولیس ہی قاتلوں سے ملکر انہیں رفوچکر کرادیتی ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا لیکن تفتیشی اہلکار ملزم کو ایسے ایف آئی آر سے نکالتے ہیں جیسے مکھن سے بال۔عدالت نے تو حکم دے رکھا ہے کہ وہ خطر ناک ملزمان جن کو پیرول پر رہا کیا گیا ہے انہیں دوبارہ گرفتار کیاجائے لیکن پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیںرینگتی۔اجمل پہاڑی 100 افراد کے قتل کا اقرار بھی کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا رہا ہونا ہمارے قانون نافذکرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
گزشتہ روز بھی کراچی میں 8 افراد قتل ہوئے 2012 میں مرنے والوں کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ جنوری126،فروری111، مارچ 134، اپریل174، مئی170، جون190، جولائی192، اگست188، ستمبر272، اکتوبر 252، نومبر205، دسمبر 187، یوں گزشتہ سال 1949 افراد کو موت کے گھاٹ اتار ا گیا اس سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ سندھ میں امن و امان کی صورت حال کس قدر مخدوش ہے۔اگر بلوچستان کے ساتھ اس کا موازنہ کریں تو یقینی طورپر یہاں بھی گورنر راج لگناچاہئے تاکہ موت کا رقص تھم سکے۔
 کچرا جمع کرنیوالے سینکڑوں بچے جناح ایونیو پہنچ گئے۔منوں کے حساب سے مال ہاتھ لگنے پرخوش
 چار روز میں ہزاروں افراد نے ایک جگہ پر پڑاﺅ ڈالے رکھا جن کا کام کھانے پینے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔صاف ظاہر ہے کہ کوڑا کرکٹ منوں تک تو ہوتا تھا۔معصوم بچے تو ”مولینا“ کو دعائیں دے رہے ہونگے کہ ایسے مارچ وہ ہرہفتے کریں، یہ وہی معصوم بچے ہیں‘ جو گلی محلوں میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرکے فروخت کرتے ہیں اور پھر اس سے ملنے والے پیسوں سے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
پولیس کو یہ مارچ15کروڑ میں پڑا جبکہ ڈاکٹر صاحب کو تو کئی کروڑوں میں پڑا ہوگا،ویسے شرکاء” لانگ مارچ“ کو چاہئے تھا کہ وہ صفائی کرکے آتے تاکہ ایک نئی مثال قائم ہوتی،ویسے بھی علامہ صاحب آدھے مولوی ،آدھے وکیل ہیں تو انہیں صفائی کا خیال رکھناچاہئے۔
اسلام نے تو صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔آدھے سے زیادہ شرکاءتو پریشان ہیں کہ لولی پاپ دکھا کر ہمیں لیجایا گیا تھا وہ تو پورے ہی نہیں ہوئے ایسے افراد سے گزارش ہے کہ زیادہ غصہ اچھا نہیں ہوتا،بس آپ لوگوں کی عزت بچ گئی اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔لانگ مارچ کو واپسی پر خوش آمدید کہنے والے یوں کہہ رہے تھے ....
 جان بچی سو لاکھوں پائے
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے
٭....٭....٭....٭
تھائی لینڈ کے نوجوان کا لاتیں مار کر درخت توڑنے کا مظاہرہ
کراٹے کے ماہر افراد کو ہاتھ مار کر اینٹیں توڑتے تو دیکھا تھا لیکن تھائی نوجوان نے اب درخت توڑنم شروع کر دئیے، لوہے کے اوزار بنانے والوں کو اپنی خیر منانی چاہئے اگر یہ کام چل پڑا تو پھر لوہاروں کی بھٹیاں ٹھنڈی پڑ جائیں گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مارشل آرٹ کے جسم پر گولی بھی اثر نہ کرے۔ بالفرض اگر ایسا ہو گیا تو پھر سب سے پہلے چور ڈاکو کلبوں کا رُخ کریں گے۔
مٹی کے گھر میں رہ کر بارش کی دعا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہم تو خود ہی بڑے کمزور ہیں اگر یہ سلسلہ نکل آیا تو بہت سارے بچے جمورے میدان میں کود پڑیں گے تب تو ہم بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر ریاست نہیں جان بچاﺅ کا نعرہ لگانا شروع کر دیں گے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ چھوٹے موٹے پودے کو کِک مار کر یار لوگ بھی گرا سکتے ہیں لیکن مزہ تو تب ہے جب کسی ستون کو گرایا جائے۔ ہمیں خبر کے آخر میں جا کر معلوم ہوا کہ تھائی مارشل آرٹ نے ”کیلے“ کے درخت کو گرایا ہے اس لئے حوصلہ پیدا ہو گیا ہے کہ نوجوان نے کوئی پہاڑ نہیں بلکہ پھول ہی مسلا ہے۔

ای پیپر دی نیشن