علامہ حکیم محمود احمد برکاتی کی یاد میں

یہ غم ناک خبر ہمدرد دواخانہ لاہور کے حکیم راحت نسیم نے مجھے دی کہ علامہ حکیم محمود برکاتی کو کسی دہشت گرد شقی القلب نے کراچی میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس وقت حکیم صاحب اپنے مطب میں مریض دیکھ رہے تھے۔ ان کی بیماریوں کی تشخیص کر رہے تھے اور صحت کے لئے دوائیں تجویز کر رہے تھے۔ یہ جاں کاہ خبر سن کر زبان پر انا للہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ آگئے لیکن دل درد سے تڑپ اٹھا کہ عوام الناس کو علالت کی حالت میں صحت کی نوید دینے والے ایک ہمدرد فائق انسان کا سلسلہ خیر منقطع کر دیا گیا تھا۔ برکاتی صاحب کی شہادت پر مجھے بے اختیار حکیم محمد سعید یاد آئے۔ انہیں چند سال قبل دہشت گردوں نے بھرے بازار میں دن دیہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ حکیم محمد سعید جیسا حکمت و دانائی‘ علم و دانش اور تنویر و عرفان کا پیکر جس کی ہر ادا بہبود و فلاح انسانی کا اعجاز تھی اس ملک کو نصیب نہیں ہوا اور جناب محمود احمد برکاتی کے بارے میں حکیم محمد سعید (شہید) نے فرمایا تھا:
جناب علامہ حکیم سید محمود احمد برکاتی.... جتنے عالم و فاضل انسان ہیں‘ ہماری طرف اطباءایسے لوگ خال خال ہیں۔ میری خواہش ہے کہ اطباءمیں ایسے لوگ بکثرت ہوں اور مجھے یقین ہے کہ جب ایسے لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو ترقی کا راستہ بند نہیں ہو سکتا۔“
جناب محمود احمد برکاتی کو وحشیانہ انداز میں غیر طبعی موت کی نذر کر دیا گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ہماری ترقی کا راستہ بند ہو گیا۔ طب مشرق‘ حکمت نبوی اور علم و ادب کی ایک ایسی شخصیت کو شہید کر دیا گیا جس کا ثانی کہیں دستیاب نہیں ہو گا۔ علامہ حکیم محمود احمد برکاتی 1926ءمیں ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جد امجد مولانا حکیم سید برکات احمد کا شمار 1857ءکے مجاہد علامہ عبدالحق خیر آبادی کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ ادب‘ منطق‘ طبقات‘ تفسیر اور اصول تفسیر کی تعلیم انہیں سے حاصل کی۔ انہوں نے فاضل دینیات اجمیر سے‘ الہ آباد سے فاضل ادب اور دہلی سے 1948ءمیں فاضل طب و جراحت کی اسناد لیں اور اس وقت سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک مطب کرتے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔
دہلی میں قیام کے دوران انہوں نے جدوجہد پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے جلسوں میں شرکت کی اور مسلم لیگ کے ایک فعال کارکن کی حیثیت میں دو قومی نظریے کے تحت پاکستان کی ناگزیر تشکیل کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد دہلی میں ان کے قیام کو مشکل بنا دیا گیا۔ چنانچہ وہ ہجرت کرکے 1954ءمیں پاکستان آگئے اور کراچی میں اپنا مطب کھول دیا جہاں غریبوں کا علاج مفت ہوتا تھا۔ ان کی طبی خدمات اور محققانہ بصیرت پر 24 فروری 2001ءکو ہمدرد یونیورسٹی کراچی نے انہیں ”ڈاکٹر آف سائنس‘ کی اعزازی ڈگری عطا کی تو راغب مراد آبادی نے ایک نظم میں انہیں خراج تحسین ادا کیا اور تسلیم کیا کہ
آپ کے اعزاز سے اعزاز کی وقعت بڑھی
آپ تو ہیں علم و فن کے بحر ناپید و کنار
جناب محمود احمد برکاتی کی بنیادی حیثیت ایک عجیب شہیر کی ہے اور یہ ان کے خیر کبیر کی تقسیم کثیر کا اہم ترین زاویہ ہے لیکن علم و ادب اور فلسفہ و منطق میں ان کی خدمات کا اعتراف وسیع پیمانے پر کیا گیا ہے۔ طب یونانی کی تحقیقی کتب کے علاوہ انہوں نے فضل حق خیر آبادی صد سن ستاون‘ شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان.... حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی‘ مولانا حکیم برکات احمد سیرت و علوم.... ادبی‘ تحقیقی اور فلسفیانہ مقالات کا مجموعہ ”سفرو تاش“ ان کی گراں قدر کتب میں شمار ہوتی ہیں۔
 ان کے بہت سے مقالات غیر مدون پڑے تھے۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی نے منتخب مقالات اور شخصیات کی دو کتابیں شائع کی ہیں اور حکیم صاحب کی درویشانہ زندگی کو ادب کی نشاة ثانیہ میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے برکاتی صاحب کی مزید کتابیں شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن اب شاید یہ وعدہ پورا نہ ہو سکے کہ ظالم دہشت گردوں نے علم و فضل کے اس سرچشمے کو جس کا نام حکیم سید محمود احمد برکاتی تھا.... زندگی سے محروم کر دیا۔ بلاشبہ ان کی وفات سے ایک عالم سوگوار ہے۔ حق تعالیٰ انکی مغفرت کرے۔

ای پیپر دی نیشن