”کامران فیصل کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے“ ورثا نے پوسٹمارٹم رپورٹ مسترد کر دی ‘ لیپ ٹاپ غائب‘ نیب حکام نے کمرہ غیر قانونی طور پر کھولا: پولیس‘

اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) رینٹل پاور کیس میں نیب کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی پراسرار موت کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ پولیس نے کمپیوٹر قبضے میں لے لیا ہے تاہم لیپ ٹاپ غائب ہے، ترجمان پولی کلینک ہسپتال ڈاکٹر شریف استوری کا کہنا ہے کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے لگتا ہے کامران فیصل نے خودکشی کی جسم پر خراش تک نہیں تھی۔ ڈاکٹر شریف استوری کے مطابق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے جسم پر تشدد یا گولی کے نشانات نہیں ملے۔ بظاہر لگتا ہے کہ کامران فیصل کی موت گلا دبنے سے ہوئی۔ گلے پر رسی کے نشانات تھے، ان کا جسم کسی نے لٹکایا نہیں تھا۔ ان کے جسم سے حاصل کیا گیا مواد کیمیائی تجزیے کے لئے لاہور بھجوایا گیا جس کی فرانزک رپورٹ ایک ہفتے بعد ملے گی۔ آئی جی پولیس بنیامین نے بھی فیڈرل لاجز میں کامران فیصل کے کمرے، باتھ روم اور دیگر جگہوں کا معائنہ کیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سیل کر دی گئی ہے۔ تھانہ سیکرٹریٹ میں کامران فیصل کی موت کی رپورٹ درج کی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عامر علی نے کامران فیصل کی پراسرار موت کے کیس میں اے سی سیکرٹریٹ نعمان یوسف کو انکوائری افسر مقرر کر دیا ہے انہوں نے انکوائری شروع کر دی ہے۔ کامران فیصل کے سٹاف اور ہاسٹل انتظامیہ کے بیانات قلمبند کئے۔ مرحوم کا موبائل فون کا ڈیٹا بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق کمپیوٹر میں ای میلز وغیرہ کا ڈیٹا موجود نہیں اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے۔ آئی این پی کے مطابق پوسٹمارٹم کرنے والے میڈیکل بورڈ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میںکامران فیصل کی موت کو خودکشی قرار دیا جبکہ کامران فیصل کے ورثا نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے تشدد زدہ نعش کو بطور ثبوت میڈیا کے سامنے پیش کر دیا‘ جس کے دائیں بازو پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔ مزید تفصیلات فرانزک رپورٹ تیار ہونے کے بعد سامنے آ سکیں گی۔ میاں چنوں میںکامران فیصل کے والد اور دیگر عزیز و اقارب نے ابتدائی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کامران فیصل نے خودکشی نہیں کی بلکہ اس پر تشدد کیا گیا، ان کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح ہیں۔ کامران فیصل کے والد چودھری عبدالحمید نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیف جسٹس سے پھر اپیل کی کہ وہ فوری طور پر اس قتل کا ازخود نوٹس لیں۔ انہوں نے کہا ہمیں ابتدائی رپورٹ سے سخت مایوسی ہوئی، ثابت ہو گیا کہ حکومتی ادارے صحیح طور پر اپنا کام نہیں کر رہے، ہم کسی ایسی رپورٹ کو نہیں مان سکتے۔ چودھری عبدالحمید نے کہاکہ میں اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ میرے بیٹے نے ہار مان کر خودکشی کی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کی تحقیقات کیلئے غیر جانبدار اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمشن بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میرا چیف جسٹس میرا اللہ ہے، میں کمزور ہوں اور وہ طاقت والا ہے۔ کامران فیصل کے ماموں نے میڈیا کو بتایا کہ میت کو غسل دیتے ہوئے معلوم ہوا اس کے پورے جسم پر تشدد کے نشانات انتہائی واضح تھے۔ ہم کس طرح پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کو تسلیم کر لیں کہ موت تشدد سے نہیں ہوئی، سب کچھ میڈیا کے سامنے ہے۔ ان کے کندھوں، پشت، سیدھی کلائی پر تشدد کے نشانات تھے۔ لواحقین کے مطابق کامران فیصل کی پشت سے پاﺅں تک تشدد کے کئی نشانات پائے گئے جبکہ اس کی کلائیوں کو رسیوں سے باندھنے کے نشانات بھی واضح تھے۔ پولیس نے کامران فیصل کا کمپیوٹر قبضے میں لے لیا لیکن ان کا لیپ ٹاپ غائب تھا۔ پولیس کے مطابق بتایا گیا کہ کامران فیصل لیپ ٹاپ استعمال کرتے تھے۔ پولیس نے نیب حکام سے استفسار کیا وہ لیپ ٹاپ کہاں ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر کامران فیصل کی موت کی تحقیقات کا عمل شروع کر دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر نعمان یوسف کو انکوائری افسر مقرر کیا جنہوں نے کامران فیصل کے سٹاف اور فیڈرل لاجز کے متعلقہ سٹاف کے بیانات قلمبند کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ کامران فیصل کے روم میٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب ساجد علی کو بھی بیان قلمبند کرانے کےلئے طلب کر لیا گیا ہے۔ واقعہ کے روز ساجد علی رخصت پر تھے۔ وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ کامران فیصل کی موت جاننے کے لئے نمونے فرانزک لیب بھجوا دئیے ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ فرانزک رپورٹ آنے کے بعد کامران فیصل کا موت کی وجہ معلوم ہو سکے گی۔ فرانزک رپورٹ آنے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے نیب حکام کی طرف سے کامران فیصل کے کمرہ کھولنے کو غیر قانونی عمل قرار دے دیا ہے۔ وصیت کا خط نہیں ملا۔ تھانہ سیکرٹریٹ میں کامران فیصل کی موت کی صرف رپورٹ درج کی گئی ہے تاہم دوسرے روز بھی مقدمہ درج نہ ہو سکا۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق کامران فیصل کی موت کی اطلاع نیب حکام نے پولیس کو دی اور ان کے پہنچنے سے پہلے کمرہ بھی کھول لیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب حکام کی طرف سے کمرہ کھولنا غیر قانونی عمل ہے۔ وفاقی پولیس نے کامران فیصل کی موت کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ تھانہ سیکرٹریٹ پولیس کے مطابق پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی کمرے کا دروازہ کھول دینا غیر قانونی عمل ہے۔ پولیس کے بغیر کمرہ کھولنے کا عمل شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ کامران فیصل کے ساتھیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کامران فیصل کی موت کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمشن قائم کیا جائے۔ کامران فیصل نیک اور ایماندار افیسر تھے، رینٹل پاور کیس اپنی نوعیت کا اہم کیس ہے اس حوالے سے دباﺅ فطری بات ہے، کامران فیصل کی موت کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ کامران فیصل کے ساتھیوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کامران فیصل کی موت کی تحقیقات کیلئے ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل انکوائری کمشن بنایا جائے۔ موت کے حوالے سے شکوک و شہبات ہیں۔ رینٹل پاور کیس اپنی نوعیت کا اہم کیس ہے جس پر پوری قوم کی نظریں لگی ہیں، اس حوالے سے دباﺅ فطری بات ہے تاہم تفتیشی افیسر ہونے کے ناطے ہمیں یہ دباﺅ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کامران فیصل نہایت ایماندار اور نیک افیسر تھے، ان کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب لاہور محمد رفیع نے مطالبہ کیا کہ کامران فیصل کا قتل ہوا یا خودکشی اس حوالے سے جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ کامران فیصل کی فیڈرل لاجز میں اپنے کمرے میں چھت کے پنکھے سے لٹکی حالت میں موت کی تحقیقات کو فیصلہ کن رخ دینے کے لئے وفاقی پولیس مکمل میڈیکل رپورٹ کی منتظر ہے جبکہ آئی جی اسلام آباد نبی امین خان نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور نیب کے جواں سال افسر کی پراسرار موت کی تفتیش کے لئے مختلف پہلو¶ں سے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا۔ آئی جی اسلام آباد نے نوائے وقت کو بتایا کہ فی الحال پولیس کو میڈیکل بورڈ کی مکمل رپورٹ نہیں ملی تاکہ ہم یہ تعین کر سکیں کہ کیا میڈیکل بورڈ کی رپورٹ متفقہ ہے یا اس میں کوئی اختلاف بھی ہے اگر اختلاف ہو گا تو تفتیش کو اس کے رخ پر بھی دیکھا جائے گا۔
میاں چنوں (نامہ نگار) نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل کو میاں چنوں کے آبائی چک 15/129ایل کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔ نمازجنازہ میونسپل سٹیڈیم میاں چنوں میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ مولانا محمد یوسف رحمانی نے پڑھائی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ میونسپل سٹیڈیم میں میت پہنچتے ہی میاں چنوں کے دکانداروں نے مرحوم کے سوگ میں دکانیں بند کر دیں۔ نمازجنازہ میں علمائے کرام، ڈاکٹروں، سماجی تنظیموں کے رہنماﺅں، شہریوں کی کثیر تعداد کے علاوہ اہم شخصیات ایم این اے پیر محمد اسلم بودلہ، ایم پی ایز رانا بابر حسین، عامر حیات ہراج، پی ٹی آئی کے فرحت اللہ خان، ایڈمنسٹریٹر مارکیٹ کمیٹی شاہد بشیر شامل تھے۔ مرحوم کا آبائی گاﺅں چک نمبر 129ای ایل ہے۔ مرحوم نے 2008ءمیں میاں چنوں کی علم دین کالونی میں 10مرلہ اراضی پر مکان تعمیر کروایا تھا۔ مرحوم کے والد چودھری عبدالحمید نے ملاقات میں کہا کہ میں نے اپنے بیٹے کا مقدمہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔ جنازہ کے شرکاءکا تاثر یہ ہے کہ مرحوم کو قتل کیا گیا۔ انصاف کی فراہمی کے لئے آج احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔ نماز جنازہ میں ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب لاہور محمد رفیع، اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب میاں نعیم نیب کے دیگر اہلکاروں، پولیس افسروں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھے گئے۔ نمازجنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے سخت اقدامات کئے گئے تھے۔ میاں چنوں کے شہریوں نے واقعہ کے خلاف شدید احتجاج کیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔ کامران فیصل کی میت اسلام آباد سے میاں چنوں گھر پہنچی تو قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھنے میں آئے، مرحوم کی بیوہ، والدہ اور عزیزواقارب کا دکھ اور صدمے سے بُرا حال تھا۔ دریں اثناءنمازجنازہ کا اجتماع نماز کی ادائیگی کے بعد احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کر گیا، مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے مائیک پر آکر کامران فیصل کی ایمانداری، جرا¿ت، بہادری کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ اپنے اپنے احتجاجی پروگراموں کا اعلان کیا۔ کامران فیصل کی تدفین کے وقت مختلف تنظیمات نے احتجاج کرتے ہوئے مارکیٹیں بند کرا دیں۔

ای پیپر دی نیشن