بالآخر تحریک منہاج القران کا 5روزہ لانگ مارچ اور دھرنا مطلوبہ مقاصد پورے حاصل کئے بغیر ختم ہو گیا تاہم ڈاکٹر طاہر القادری پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ پاکستان مےں ان کے پاس ملک کا امن و امان تہ و بالا کرنے کے لئے مضبوط سٹریٹ پاور ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مینار پاکستان کے سایہ تلے50 ، 60 ہزار کے مجمع کو 20 لاکھ کا اجتماع قرار دے کر 13 جنوری 2013ءکو 40 لاکھ افراد کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر کے نہ صرف اپنے ہزار ہا مریدین کو امتحان مےں ڈال دیا بلکہ پانچ چھ روز تک راولپنڈی اور اسلام آباد کو اےک ایسی اذیت مےں مبتلا کئے رکھا جسے دور کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد مےں 35، 40 ہزار لانگ مارچ کو 40 لاکھ کا قرار دےنے کی کوشش کی جب کہ پانچ روزہ لانگ مارچ مےں یہ تعداد دن کے اُجالے مےں 15، 20 ہزار اور رات کی تاریکی مےں کم ہو کر 10، 12ہزار رہ جاتی اگر لانگ مارچ و دھرنے کے شرکاءکی تعداد ٹی وی کی آنکھ سے دیکھی جائے تو ہزاروں کا اجتماع لاکھوں مےں بنا کر دکھا دیتی رہی ہے لیکن صحیح تعداد کا اندازہ انسانی آنکھ سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے خود ”بم پروف کنٹینر“ جسے فائیو سٹار ہوٹل کا نام دیا گےا ہے مےں رہ کر پانچ روز تک حکومت کے خلاف مورچہ لگائے رکھا اگرچہ انہوں نے اپنے ”پیروکاروں“ کو بار بار اللہ، رسول ﷺ اور قرآن کا واسطہ دے کر بٹھائے رکھا لےکن اس کے باوجود ان ”پیروکاروں“ کو داد دےنے کو جی چاہتا ہے جو پانچ روز تک اسلام آباد کے یخ بستہ ماحول میں اپنے قائد کے ساتھ ڈٹے رہے اور اسلام آباد کی سرد ہَواﺅں کے باوجود اس وقت تک دھرنے مےں موجود رہے جب تک ”بلٹ پروف کنٹےنر“ کے مکےن نے اپنے گھروں کو واپس جانے کا حکم نہیں دیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد مےں ماضی مےں بھی ”لانگ مارچ اور دھرنے“ دئیے جاتے رہے ہیں لیکن چین کے لانگ مارچ اور انقلاب فرانس کی تاریخ سے ناواقف لوگ لاہور سے اسلام آباد تک 280 کلومےٹر کی مسافت 35، 36 گھنٹوں مےں پنجاب پولیس کی حفاظتی تحویل مےں طے کرنے کو لانگ مارچ کا نام دینے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ چین کا لانگ مارچ 1946-1952ءتک جاری رہا جس مےں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ثقافتی انقلاب برپا کےا۔ انقلاب فرانس 1789-1799ءتک جاری رہا جس مےں 40 ہزار افراد انقلاب فرانس کا نوالہ بن گئے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ کیسا لانگ مارچ اور دھرنا تھا کہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں نے اسے منزلِ مقصود تک پہنچانے مےں تمام سہولیات فراہم کیں ”طالبان یا ممکنہ دہشت گردی“ سے نمٹنے کے لئے لانگ مارچ کے قائد کی حفاظت پر خصوصی دستہ تعینات رہا۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری کے قافلہ نے بلیو ایریا میں سعودی پاک ٹاورکے سامنے پہلا پراﺅ ڈالا تو انہوں نے حکومت کو اگلے روز گےارہ بجے تک اسمبلیاں تحلےل کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی اور اعلان کر دیا کہ صدر، وزیراعظم اور وزراءسابق ہو گئے ہیں وہ سابق ہوئے اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اسلام آباد پولیس پیچھے ہٹ گئی اور ان کو پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ڈی چوک پر ڈیرہ لگانے کا موقع فراہم کر دےا جسے ڈاکٹر طاہر القادری نے ”میدان کربلا“ قرار دیا اور حکمرانوں کو ”ےزید اور اپنے آپ کو حسےن“ سے تشبیہ دی لیکن پھر بقول ڈاکٹر طاہر القادری آج کے ”حسین اور ےزید“ کے درمیان معاہدہ کےوں کر ہوا؟ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے تےسرے روز وفاقی حکومت نے ریاستی طاقت کے زور پر دھرنے کے شرکاءکو منتشر کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان مسلم لےگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسےن دھرنے کے شرکاءکے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرنے کی راہ مےں حائل ہو گئے اور صدر آصف علی زرداری کو طاقت کے بے رحمانہ استعمال کے مضمرات سے آگاہ کےا۔ چوہدری شجاعت حسین نے لال مسجد کی تاریخ دہرانے کی صورت میں حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دے دی جس کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیر داخلہ رحمنٰ ملک کو آپریشن سے روک دیا۔ وزیر داخلہ نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب کارروائی کا فےصلہ کےا تھا اس مقصد کے لئے سی ڈی اے کے 400 اہلکاروں کو صفائی کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا جب کہ انہوں نے پنجاب پولیس کے 10 ہزار تازہ دم جوانوں کی مدد طلب کر لی تھی۔ جمعرات کو چوہدری شجاعت حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈاکٹر طاہر القادری سے رابطہ کر کے انہیں صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کےا جو پہلے ہی معاہدہ کے لئے تیار بیٹھے تھے اور اپنے”بم پروف کنٹینر“ سے دہائی دے رہے تھے کل دھرنا نہےں ہو گا حکومت ان سے چار نکاتی چارٹر آف ڈےمانڈ پر مذاکرات کیلئے آ جائے پھر ان کی ڈیڈ لائن ختم ہونے تک وزےراعظم راجہ پروےز اشرف نے چوہدری شجاعت حسین کی قےادت مےں 10 رکنی مذاکراتی ٹیم ”بم پروف کنٹینر“ میں بھیج دی پھر دیکھتے ہی دیکھتے فاروق ایچ نائیک نے ڈاکٹر طاہر القادری کی فیس سیونگ کے لئے چار نکاتی معاہدہ تےار کر لیا جسے ڈاکٹر طاہر القادری نے ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلیریشن“ کا نام دے دیا یہ معاہدہ جس میں ڈاکٹر طاہر القادی کے کسی مطالبہ کو پذیرائی نہےں بخشی گئی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اور نہ الیکشن کمشن ختم ہوا کیونکہ آئین میں ترمیم کئے بغیر الیکشن کمشن کی تشکیل نو نہیں ہو سکتی اسی طرح نگران حکومت کی تشکیل کے لئے تمام جماعتوں سے مشاورت کو لازمی قرار دیا نہیں جا سکتا البتہ حکومتی اتحاد نگران وزیراعظم کے لئے دو ناموں کو حتمی شکل دینے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری سے مشاورت کا پابند ہوگا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آئین کے تحت صرف وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر ہی نگران وزیراعظم کے لئے دو دو نام تجویز کر سکتے ہےں اگر ان کے درمیان تین روز مےں اتفاق رائے نہ ہوا تو نگران وزیراعظم کی تقرری کا اختیار الیکشن کمشن کے پاس چلا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور218 پر عملدرآمد عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ءایکٹ مےں پہلے ہی موجود ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے اسے ”مک مکا“ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے پھبتی کسی کہ ڈاکٹر طاہر القادری اس معاہدہ کے بعد حکومتی اتحاد کا حصہ بن گئے ہےں جبکہ مولانا فضل الرحمنٰ نے اس معاہدہ کو ”کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ سے تعبیر کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری تو ریاست بچانے اسلام آباد گئے تھے اپنی سیاست بچا کر آ گئے یا عزت اس بات کا فیصلہ قارئین خود کریں تو بہتر ہے۔
لانگ مارچ ”ریاست، سیاست اور عزت“
Jan 20, 2013