”کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا“
ایف ڈی اے کا تعمیراتی کردار اور اس کی نئی سیاسی قیادت!
ایف ڈی اے سٹی نہ گیس نہ بجلی نہ پانی شہریوں سے اربوں روپے حاصل کئے گئے۔ وہ پیسہ کہاں گیا؟
ایف ڈی اے حکام نے ہا¶سنگ سکیم میں سال دو سال کے اند تمام سہولتوں کی فراہمی کے خواب دکھا کر اس کی اشتہاری مہم چلائی
ایف ڈی اے جیسے اداروں کے ٹیکنیکل سربراہوں کی بجائے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی یا اپنی اپنی پارٹی کے جیالوں اور متوالوں کو ان اداروں کی باگ ڈور سونپ دیتی ہیں
ایف ڈی اے جو 38برسوں سے فیصل آباد شہر کے لئے ایک سفید ہاتھی بنا ہوا ہے اس ادارے کی کارگزاری نہ ہونے کے برابر ہے
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
ایف ڈی اے سٹی ہا¶سنگ سکیم جس کی منصوبہ بندی کرتے وقت اس ادارہ کے ارباب بست و کشاد نے بہت بلند دعوے کئے تھے۔ میں نے گذشتہ دنوں اپنے کالم میں ایف ڈی اے کے الاٹیوں کے حوالے سے سوال کیا تھا کہ اس رہا ئشی سکیم میں ان کے پلاٹوں کا سٹیٹس کیا ہے۔ سات سال قبل ایف ڈی اے سٹی کی اس سکیم کا اس قدر چرچا تھا کہ ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ اعلان کردہ رقوم کے ڈرافٹ سمیت مختلف کیٹیگری کے پلاٹوں کے لئے درخواستیں دے رہے تھے۔ ایک شخص نے بتایا کہ وہ چند سال بعد اپنی ملازمت سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ انہوں نے ساری عمر کی جمع پونجی سے اپنے اور اپنی بیوی کے نام سے دو مختلف کیٹیگری کے پلاٹوں کے لئے درخواستیں دیں ،درخواستوں کے ساتھ ڈا¶ن پے منٹ اور ایف ڈی اے سٹی ہا¶سنگ سکیم میں درخواست دینے کی ناقابل واپسی رقوم کے ڈرافٹ بنوانے کے لئے ملت ٹا¶ن میں اپنے دو رہائشی پلاٹ بھی فروخت کر دیئے تھے۔ انہوں نے ربع صدی پہلے یہ پلاٹ بھی اسی امید پر حاصل کئے تھے کہ اس سرکاری رہائشی سکیم کے لئے ایف ڈی اے حکام اپنے اثر و رسوخ سے تمام تر تمدنی سہولتیں بجلی، گیس، پانی، سڑکیں، سیوریج، ٹیلی فون اور قبرستان کے علاوہ سکول، کالج وغیرہ کی فراہمی کو یقینی بنا دیں گے۔ جب ایف ڈی اے حکام نے ایف ڈی اے سٹی ہا¶سنگ سکیم میں سال دو سال کے اندر ان تمام سہولتوں کی فراہمی کے خواب دکھا کر اس کی اشتہاری مہم چلائی تو لوگ اس سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ اکثر و بیشتر یہ کہتے ہوئے ملتے تھے کہ ایف ڈی اے سٹی فیصل آباد شہر کا جدید اور حقیقی چہرہ ہو گا۔ وہ موٹروے تھری کے اس ہا¶سنگ سکیم کے قریب ہونے کے حوالے سے اکثر کہا کرتے تھے کہ اس ہا¶سنگ سکیم کے رہنے والوں کے لئے لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کے ساتھ رابطہ بہت زیادہ آسان ہو جائے گا اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایف ڈی اے سٹی میں رہ رہے ہوں گے تو انہیں آٹھ بازاروں کے شہر میں آنے جانے کی بہت کم ضرورت ہو گی لیکن ایف ڈی اے سٹی کے لئے درخواستیں دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پلاٹوں کی قرعہ اندازی میں ان کے یا ان کی اہلیہ کے نام کوئی پلاٹ نہیں نکلا اور بہت زیادہ خجل خرابی کے بعد انہیں وہ رقوم واپس ہوئیں جن کو انہوں نے ڈا¶ن پے منٹ کے طور پر بینک ڈرافٹوں کی صورت میں جمع کرایا تھا،جو پانچ سال تک ایف ڈی اے کے استعمال میں رہی تھیں۔ چونکہ ایف ڈی اے سٹی میں اس کے الاٹیوں کو بھی تمدنی سہولتیں میسر نہیں آ سکی تھیں لہٰذا پانچ سال تک ایف ڈی اے سٹی میں رہائشی پلاٹ کا خواب دیکھنے کے بعد ناکامی سے دوچار ہونے والے میرے اس واقف کار گھرانے کو اب یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرعہ اندازی میں ان کے نام کا کوئی پلاٹ نہ نکال کر دراصل ان کی کسی نیکی کا صلہ دیا ہے کہ جن کے قرعہ اندازی میں پلاٹ نکلے ہیں ان کی رقوم وقتی طور پر تو لگتا ہے کہ ڈوب چکی ہیں کہ ایف ڈی اے حکام نے یہ رہائشی سکیم بھی اپنے ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے شروع کر رکھی ہے۔ وہ رہائشی پلاٹوں کی قسطیں ادا کر چکے ہیں لیکن گھروں کی تعمیر کے لئے رہائشی پلاٹ دستیاب نہیں ہیں۔ میں نے ایف ڈی اے سٹی کے الاٹیوں کا درد الفاظ میں ڈھال کر اپنے کالم میں پیش کیا تو ایف ڈی اے کے سیاسی سربراہ شیخ اعجاز احمد رکن پنجاب اسمبلی کا ایک بیان ایف ڈی اے سٹی کے حوالے سے کچھ اس طرح سامنے آیا ہے کہ انہوں نے ایک طرف تو یہ نوید سنائی ہے کہ اس ہا¶سنگ سکیم کے اے اور ایف بلاکس میں 25جنوری تک بجلی فراہم کر دی جائے گی۔ اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ اس قسم کے وعدوں سے الاٹیوں کے دلوں کو بہلایا جاتا رہا ہے اور اب شیخ اعجاز احمد کے اس اعلان پر ان کا تبصرہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ
”تیرے وعدے پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا“
تاہم میری ذاتی رائے ہے کہ یہ اعلان ایف ڈی اے کے ایک ایسے عہدیدار کی طرف سے کیا گیا ہے جو عوامی نمائندہ ہے،انہیں یقیناً اس امر کااحساس ہے کہ وہ ایف ڈی اے کے بیوروکریٹ سربراہ نہیں ہیں عوامی سربراہ ہیں اور بپھرے ہوئے عوام ان کے گریبان میں بیچ بازار ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ ویسے مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ سیاسی حکومتیں، ایف ڈی اے جیسے اداروں کے ٹیکنیکل سربراہوں کی بجائے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی یا اپنی اپنی پارٹی کے جیالوں اور متوالوں کو ان اداروں کی باگ ڈور کیوں سونپ دیتی ہیں۔ فیصل آباد کے لگ بھگ دورجن ارکان پنجاب اسمبلی کو لے دے کر ایک صوبائی وزارت ملی ہوئی تھی لیکن سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ خاں صوبائی کابینہ میں اس قدر متحرک تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی مصروفیات کے باعث انہیں پنجاب کے بعض امور میں فرائض ادا کرنے کا موقع ملتا رہتا تھا ۔ بعداز گلبرگ کے واقعہ کے فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے اکلوتے صوبائی وزیر سے ان کی وزارت کا قلمدان واپس لے لیا گیا اور اب رانا ثناءاللہ خاں تو بظاہر سابق صوبائی وزیر بن چکے ہیں ، فیصل آباد کے ارکان صوبائی اسمبلی میں سے قانون کے پیشہ سے وابستہ دوسرے رکن اسمبلی شیخ اعجاز احمد کو ان کی جگہ صوبائی وزیرقانون بنانے کی بجائے حکومت نے ایف ڈی اے کا سیاسی چیئرمین بنا دیا ہے گویا انہیں عوامی خدمت کے لئے فیصل آباد شہر کا وہ ادارہ سونپ دیا گیا ہے جو 1990ءکے عشرے میں میاں شہبازشریف کی صوبائی حکومت نے رانا ثناءاللہ کو سونپ رکھا تھا۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے علاوہ ایف ڈی اے اور میونسپل اداروں کے ساتھ پیپلزپارٹی بھی اس قسم کا کباڑ کرتی رہی ہے۔ رانا ثناءاللہ خاں ایف ڈی اے کے عوامی سربراہ بنے تو ان کے دور میں بھی ایف ڈی اے کے ملازمین کی تنخواہوں اور اخراجات کا بوجھ بڑھ گیا تھا اور اب بھی یقیناً بہت سے بے روزگار متوالوں کو ایف ڈی اے کی متعدد آسامیوں پر ایڈجسٹ منٹ ملتی رہے گی۔ قومی اسمبلی کے رکن میاں عبدالمنان کے بیٹے میاں محمد عرفان کو ایف ڈی اے کی وائس چیئرمین شپ مل چکی ہے۔ یہ فیصلہ تو یقینا پنجاب حکومت نے کیا ہو گا۔ انہیں ایف ڈی اے کے ذیلی ادارے واسا کی چیئرمین شپ بھی مل گئی ہے۔ چلو اچھا ہوا۔اس سے سیاسی دکانداری چمکتی ہے۔ ایف ڈی اے جو 38برسوں سے فیصل آباد شہر کے لئے ایک سفید ہاتھی بنا ہوا ہے اس ادارے کی کارگزاری نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ اس کے ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ اس قدر زیادہ ہے کہ اگر یہ ادارہ بند کر کے اس کے ملازمین کی تنخواہوں سے فیصل آباد کی توسیع و ترقی کے کام کئے جائیں تو گذشتہ ساڑھے تین عشروں میں فیصل آباد حقیقی معنوں میں پاکستان کا پیرس بن چکا ہوتا۔ ایف ڈی اے کے سیاسی چیئرمین شیخ اعجاز احمد نے نوید سنائی ہے کہ ایف ڈی اے، گلستان کالونی، مدینہ ٹا¶ن اور کینال روڈ پر تین کثیرالمنزلہ پلازے بنائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ شیخ اعجاز احمد نے جڑانوالہ روڈ کے فلیٹس، سرسید ٹا¶ن اور پرانی سول لائنز کے فلیٹس کی تعمیر اور ان کی الاٹمنٹوں کی پرآشوب ہسٹری سے بھی یقینا آگاہ ہوں گے۔ شیخ اعجاز احمد ایک سیاسی نمائندے ہیں اور کون جانے ان کی حکومت کا کب دھڑن تختہ ہو جائے کہ جیسے جیسے ملک کے حالات خراب ہو رہے ہیں افواج پاکستان کی ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ بدھو اور اونٹ کی کہانی ہے۔ اونٹ کی گردن اور اس کے دھڑ کا اگلا حصہ خیمے کے اندر آ چکا ہے اور کون جانے اونٹ سارے کا سارا اندر اور بدھو خیمے سے باہر ہو جائے لہٰذا شیخ اعجاز احمد کو ایسے تعمیراتی منصوبوں کا آغاز نہیں کرنا چاہیے جن کی تعمیر میں نہ تو معیاری میٹریل استعمال ہو اور نہ ہی دس پندرہ برسوں تک جن پلازوں کو تمدنی سہولتیں فراہم ہو سکیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ شیخ اعجاز احمد کی پارٹی کی حکومت ان کثیرالمنزلہ پلازوں کی تعمیر کرائے اور اس کے رہائشی فلیٹس اور دکانیں آئندہ اقتدار میں آنے والی پارٹی کے کارکنوں کی بندربانٹ میں کام آئیں۔ شیخ اعجاز احمد کے لئے یہی مناسب ہو گا کہ وہ ایف ڈی اے سٹی کو اعلان کردہ سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اس رہائشی سکیم میں بننے والے گھروں، دکانوں اور دفاتر کو بجلی اور پانی کے علاوہ گیس کی ضرورت ہو گی۔ ویسے تو گیس اب عوام کو کچھ اسی طرح فراہم ہو رہی ہے کہ گھروں کے چولہے تک ٹھنڈے پڑے ہیں لہٰذا نئی رہائشی سکیموں کو گیس کہاں سے دی جائے گی۔ پھر ان سب سہولتوں کی فراہمی کے بلندوبانگ دعو¶ں کا کیا ہو گا؟