کراچی (رپورٹ عبدالقدوس فائق) تھر میں کوئلہ کی کانوں اور بجلی گھروں کی تعمیر کیلئے چینی ماہرین کی جماعتیں اور دیگر آلات تھر پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس کا انکشاف صحافیوں کے دورہ تھر کے دوران ہوا۔ دورہ کا اہتمام سندھ اینگروکول مائننگ نے کیا تھا۔ تھر میں کان کنی اور بجلی گھروں کیلئے ابتدائی کام شروع کر دیا گیا ہے جبکہ کان کنی کے ابتدائی مرحلہ کا 70فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ اس موقع پر سندھ اینگرو مائننگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شمس الدین احمد شیخ نے صحافیوں کو بتایا کہ آئندہ دو ماہ میں مالیات کی فراہمی مکمل ہو جائے گی۔ اسی کے ساتھ مزید چینی ماہرین کی جماعتیں جدید آلات و ٹیکنالوجی کے ساتھ پاکستان پہنچ جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ تھر میں کوئلہ کے 175ارب ٹن سے زائد کے ذخائر دنیا میں 7ویں نمبر پر ہیں اور پہلے مرحلہ میں بلاک نمبر2 میں جہاں 2ارب ٹن کوئلہ کے ذخائر ہیں کی کانیں اور330 اور 330 میگاواٹ کے دو بجلی گھر قائم کئے جا رہے ہیں جو 2017ءکے آخر یا 2018ءکے آغاز میں مکمل کرکے پیداوار شروع کردی جائے گی پھر دوسرے مرحلہ میں اسی طرح330 میگاواٹ اور330 میگاواٹ کے دو بجلی گھر تیسرے مرحلہ میں بھی 660 میگاواٹ کے دو بجلی گھر ا ور مجموعی طورپر3960 میگاواٹ بجلی تیار ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا میں اس وقت 41فیصد بجلی کوئلہ سے تیار ہو رہی ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں 70فیصد بجلی کوئلہ سے ہی تیار ہوتی ہے۔ اس وقت پانی (ہائیڈل) کے بعد سب سے کم قیمت پر بجلی کوئلہ سے تیار ہوتی ہے۔ شمس الدین احمد شیخ نے بتایا کہ بھارتی گجرات کے کوئلہ کے مقابلہ میں تھر کے کوئلہ کا معیار ‘ حرارت کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، منصوبے کی تخمینی لاگت 2ارب امریکی ڈالر ہے جس میں حکومت سندھ اینگرو کے ساتھ بعد میں حب پاور اورتھل لمیٹڈ بھی اشتراک کریں گی اور اب تک اینگرو اور حکومت سندھ نے 3ارب 80کروڑ روپے اپنے حصہ کے طورپر ادا کردیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پانی وبجلی دونوں کی قلت ہے اور اس قلت کے خاتمہ کیلئے ملک میں مزید ڈیمز تعمیر کرنا بھی ضروری ہیں ساتھ ہی تربیلا اور منگلا ڈیم کو بھی بہتربنایا جائے۔ اس موقع پر سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے مینجر پروجیکٹ نعیم آفتاب پاشا نے بتایا کہ کوئلہ نکالنے کیلئے 5میٹر گہری ڈھلانیں مکمل کرلی گئی ہیں اور اس کیلئے چین سے مخصوص ٹیکنالوجی کے حامل ڈمپر بھی پہنچ گئے ہیں جو مصروف عمل ہیں۔
تھر / کوئلہ کی کان