محکمہ آبپاشی کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بڑے زمینداروں کی جانب سے پانی چوری کرنے کی وجہ سے نہروں اور نالوں کے آخری سروں کی زرعی زمینوں والے کسان اپنے 60 سے 65 فیصد پانی سے محروم ہو گئے ہیں۔
کسان محکمہ انہار کے عملے کو منتھلی دیکر موہگہ توڑتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں نہر پر پائپ لگا کر پانی چوری کرتے ہیں خصوصی طور پر مونجی کے موسم میں بیلداروں کی ملی بھگت سے پانی ٹیلوں تک نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ اکثر علاقوں میں آج بھی نالے کچے ہیں جس وجہ سے جگہ جگہ سے شگاف پڑ جاتے ہیں اور رات کی تاریکی میں کسان خود بھی نالے پر ناکے لگا لیتے ہیں۔ بھل صفائی نہ ہونے کے باعث نالوں میں رکاوٹیں بن جاتی ہیں اور یوں پانی برق رفتاری سے ٹیلوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ حکومت نے نہری پانی کی چوری کو ناقابل ضمانت جرم قرار دے رکھا ہے لیکن محکمہ آبپاشی اور کسان تنظیموں کی عدم دلچسپی کے باعث پانی چوری روکنے میں زبردست ناکامی دیکھنے میں آ رہی ہے بلکہ بعض مقامات پر تو کسان تنظیموں کے عہدیداران بھی پانی چوری میں ملوث ہیں۔ حکومت اگر کسانوں کو پانی مہیا نہیں کریگی تو کسان فصلیں کیسے کاشت کر سکیں گے۔ ڈیزل بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویل اور دیگر ذرائع سے پانی دیکر فصلوں کو بڑا کرنا انتہائی مہنگا پڑتا ہے لہٰذا حکومت کسانوںکی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے نہروں کو ٹیلوں تک پختہ کرے اور پانی چوری کے قوانین لاگو کر کے حکومتی رٹ مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ غریب کسانوں کی حق تلفی دور کرے۔