منگل ‘ 28 ربیع الاوّل 1436ھ‘ 20 جنوری 2015ئ

Jan 20, 2015

گوجرانوالہ میں دولہا تانگوں پر بارات لے کر پہنچ گیا۔ رائیونڈ باراتیوں کی دولہا کو 10 لیٹر پٹرول کی سلامی۔ عارفوالہ کے دولہا کا گوجرانوالہ میں پڑاﺅ، دلہن راولپنڈی سے گوجرانوالہ آئی، کہیں بارات گدھوں پر روانہ ہوئی!

چلئے اچھا ہی ہوا ہماری روایات اور ثقافت کا ایک رنگ برنگا بھولا بسرا کردار ”تانگہ“ اس بہانے پھر ہماری زندگیوں میں لوٹ آیا۔ آخر پہلے بھی تو باراتیں بیل گاڑیوں اور تانگوں پر ہی جاتی تھیں، صحرائی علاقوں میں گدھوں اور اونٹوں پر باراتیں ڈھول بجاتی، گانے گاتے نکلتی تھیں، اب کون سی قیامت آ گئی کہ یہ چار دن کے پٹرول کی بندش نے عوام کے چھکے چھڑا دئیے اور انہیں ان کی اوقات یاد دلا دی جس پر ہم حکومت وقت کے بہت شکر گزار ہیں۔
پٹرول کے بحران نے کیا کیا مناظر قوم کو دکھائے ہیں ان کی یہ ایک ادنیٰ سی جھلک ہے اور یہ مناظر حکومت وقت کی مہربانی سے ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ویسے غلطی ان بے وقوفوں کی بھی ہے جو ملکی حالات سے بے خبر شادیاں رچانے نکل پڑتے ہیں، عمران خان کی طرح اب چاہے راستے میں پٹرول ہو نہ ہو اس کی پرواہ نہیں کرتے پھر اس طرح تو ہوتا ہی ہے ناں‘ اس طرح کے کاموں میں۔ کہاں وہ دعوے کہ ہم آ کر تمام مسائل حل کریں گے اور کہاں یہ حالت کہ عوام سے تمام وسائل چھین لئے جا رہے ہیں اور وزیراعظم سے لے کر وزیر خزانہ تک اربوں روپے کے منصوبوں کی نوید سنا رہے ہیں جن کی مدد سے یہ قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور یہ سب منصوبے وہ ہیں جن کیلئے اربوں روپے غیر ممالک سے قرضے کی شکل میں لئے جائیں گے اور بعد ازاں یہ رقم حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں میں ہو گی اور یہ منصوبے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کی طرح کھٹائی میں پڑے ہوں گے یا نندی پور اور رینٹل پاور پلانٹ والا حشر ان کا ہو گا۔ ہے نا عجب بات جہاں پٹرول دستیاب نہیں وہاں موٹر سائیکل کا کارخانہ چالو ہونے کی نوید دی جا رہی ہے۔
گیس اور بجلی کے بعد اب پٹرول کے بحران نے عوام سے ان کی رہی سہی خوشیاں بھی چھین لی ہیں اور کیا جوان، کیا بوڑھے، کیا بچے، اب تو مرد و زن کی تفریق بھی نہیں‘ سب لائن میں کھڑے پٹرول پمپوں پر خوار نظر آتے ہیں۔ جیسے کبھی راشن ڈپوﺅں پر نظر آتے تھے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
مرد خواتین کی باتوں پر دھیان دیا کریں، اکڑ فوں نہ دکھائیں : پوپ کا مشورہ!
ہمیں تو پہلے ہی پوپ فرانسس کی صلح جو طبیعت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ وہ سخت تناﺅ کے ماحول میں بھی جس طرح امن کی بات کرتے ہیں اگر اس پر لوگ کان دھریں تو بہت سے موجودہ مسائل جنہوں نے عالمی سطح پر مذہبی انتہا پسندی کی راہ ہموار کی ہے کم ہو سکتے ہیں۔
اب انہوں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان امن اور صلح جوئی کا فارمولا بتایا ہے وہ اسلام کے فلسفہ حیات کے بہت ہی قریب ہے جس میں مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے۔ اسلام بھی تحمل مزاجی سے برداشت و درگزر پر زور دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب ہر جگہ ”پدر سری“ معاشرے میں مرد حضرات صرف اپنی حاکمیت ہی پسند کرتے ہیں اور زنانہ بات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو مردانہ بات کی ہوتی ہے چاہے وہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ ہاں البتہ گھریلو محاذ پر دبنگ قسم کی خواتین کا معاملہ ذرا مختلف ہے وہ اپنا ہر فیصلہ منوانے کی طاقت رکھتی ہیں کیا مجال ہے شوہر نامدار کی کہ وہ اُف بھی کریں بلکہ ان کی حالت تو اس شعر کے مصداق ہوتی ہے ....
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
کیونکہ گھریلو محاذ پر پسپائی کا ذکرِ خیر کر کے کوئی بھی اپنی مردانگی کا بھرم کھونا نہیں چاہتا۔ پوپ صاحب کو چاہئے کہ وہ وزن برابر کرنے کے لئے ایسی خواتین کے بارے میں بھی اصلاحی بیان ارشاد فرمائیں کہ ایسی خواتین بھی مردوں کی باتوں پر دھیان دیا کریں اپنی نہ سُنایا کریں تاکہ دونوں طرف سے قیام امن کی راہیں کھل سکیں۔ سچ کہتے ہیں دانائی کی بات جہاں سے ملے اسے قبول کرو یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے ....
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
رانا ثنااللہ اسی سال جیل میں ہوں گے : عمران خان! میں جیل میں نہیں عمران خان پاگل خانے میں ہوں گے : رانا ثنااللہ!
یہ ہے ہمارے سیاستدانوں اور رہنماﺅں کی زبانی حالت، دماغی کے بارے میں یہ خود زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہوں گے، اس لئے فی الحال ہمیں قلم کشائی کی ضرورت نہیں۔ ان کی اپنی لب کشائی ہی بہت سے افسانوں کو حقیقت کا روپ بخشتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہو یا فیصل آباد اس کے پردہ نشینوں میں رانا ثنااللہ کا نام نہایت شد و مد سے لیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک والے کھلم کھلا ان کا ذمہ دار رانا ثنااللہ کو ٹھہراتے ہیں اور انہیں اس جرم میں لٹکتا دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور بارہا اس کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس کے جواب میں اب رانا جی خان صاحب کو 9 نمبر کی بس پر بٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ افسوس علامہ قادری پہلی فرصت میں ہی پرواز کر چکے ہیں ورنہ رانا جی ان کے بارے میں نجانے کیا کہتے۔
کون کہاں ہو گا اس کا فیصلہ تو وقت نے کرنا ہے کہ کون پاگل خانے میں ہو گا اور کون قید خانے میں۔ اس وقت تو بُرا وقت قوم پر آیا ہوا ہے جس نے اچھے بھلے لوگوں کو بھی پاگل بنا دیا ہے۔ اگر یہ وقت جلد نہ ٹلا تو پورا ملک ضرور پاگل خانے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس وقت عوام کو رانا جی اور عمران خان کی اس زبانی جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں اپنے لینے کے دینے پڑے ہوئے ہیں۔

مزیدخبریں