”20 جنوری“ اور پاکستان

آج بیس جنوری ہے۔ بظاہر سال کے ہر دن کی طرح ایک عام سا دن۔ لیکن اگر ہم پاکستان کی تاریخ کے اوراق پلٹائیں تو اس دن پاکستان کی تاریخ کے دو اہم ترین فیصلے ہوئے۔ حکمرانوں اور حکومت کے ایک غلط فیصلے نے پاکستان کے دولخت ہونے میں اہم کردار ادا کیا اور وقت کے حکمران کے ایک درست فیصلے نے آج کے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔
جن دو اہم تاریخی واقعات کا ذکر میں کر رہا ہوں ان میں سے پہلا ”20 جنوری 1969ئ“ کو مشرقی پاکستان (آج کا بنگلہ دیش) میں پیش آیا۔ ایوب خان کے دور میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کے حق میں تحریک میں بہت سی عوامی تنظیموں سمیت طالب علم بھی حصہ لے رہے تھے۔ بظاہر ان کا مقصد مشرقی پاکستان سمیت تمام صوبوں کی زیادہ سے زیادہ خودمختاری اور اختیارات کی صوبائی حکومتوں کو منتقلی تھا۔ بقول شیخ مجیب الرحمان کے وہ اس طرح مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے استحصال کا خاتمہ چاہتے تھے۔ انکے دل میں کیا تھا اور ان کے اصل مقاصد جو بھی تھے لیکن ابھی نفرتیں ناقابل واپسی کی حد تک نہیں بڑھی تھیں اور اس وقت تک انکے مطالبات میں نہ تو ”آزادی“ کا مطالبہ شامل تھا اور نہ بغاوت۔ مشرقی پاکستان کے بہت سے طالب علموں میں پہلے ہی بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں ایک اہم طالب علم رہنما ” امان اللہ اسدالزماں“ تھے۔ ان سمیت ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے 20 جنوری 1969ءکو ہڑتال اور مظاہرے کا اعلان کیا جس کے جواب میں اس وقت کے گورنر نے ان طالب علموں کو احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے کی اجازت دینے اور انکی بات سننے کی بجائے انکے مظاہرے کو ہر قیمت پر روکنے کا اعلان کیا۔ بہت سے طالب علم دفعہ 144 کے باوجود دوپہر کے وقت ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سامنے اکٹھے ہو گئے ۔ لاٹھی چارج اور اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس دوران پولیس نے طالب علم رہنما ”امان اللہ اسدالزمان“ کو قریب کے فاصلے سے گولی مار دی جو ان کےلئے مہلک ثابت ہوئی اور وہ انتقال کر گئے۔ ایک طالب علم کی ہلاکت نے مظاہروں کو مزید بھڑکا دیا اور مظاہرین کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر ہزاروں ہو گئی۔ تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا اور پہلے سے کئی گنا بڑے مظاہرے شروع ہو گئے۔ یہ سلسلہ اس حد تک بڑھا کہ دو ماہ کے اندر اندر، 25 مارچ 1969ءکو ایوب خا ن کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ بلاشبہ بے شمار عوامل سقوط ڈھاکہ کے محرک بنے تھے لیکن مظاہرین کی بات سننے اور انکو مطمئن کرنے کی بجائے انکے ساتھ ”آہنی ہاتھوں“ کے ساتھ ”نبٹنے“ کے اس غیر متمدن اور احمقانہ فیصلے نے عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کی آگ کو مزید بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگلے کچھ دنوں میں دو مزید طالب علم انتظامیہ کے ہاتھوں مارے گئے اور تمام واقعات کا انجام ”سقوط ڈھاکہ“ کی شکل میں سامنے آیا۔ بنگلہ دیش میں آج بھی ہر سال 20 جنوری کو ”شہید اسد ڈے“ منایا جاتا ہے۔
ایک دوسرا فیصلہ جو 20 جنوری 1972ءکو اسوقت کے حکمرانوں نے کیا وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تھا۔ ویسے تو ”پاکستان اٹامک انرجی کمیشن“ 1956ئ میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم بنانا نہیں تھا۔ 1960ءکی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ بھارت ”بھا بھا ایٹمی تنصیبات“ میں ایٹم بم کی تیاری کے کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے 11 دسمبر 1965ءکو لندن کے ایک ہوٹل میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی اور دونوں نے مل کر ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان حالات میں، ایٹمی اسلجے کی دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے۔ ایوب خان اس سلسلے قائل نہ ہو سکے۔ اسکے بعد ہماری قوم نے 1971ءدیکھا۔ پاکستان کے دو لخت ہونے اور پاکستان کی شکست کے بعد بھارت دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے دو قومی نظرےے کو ختم کر دیا ہے۔ اس سب نے آخر کار پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کےلئے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کرنا ہو گا۔ اس میں اہم ترین رول بلا شبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب وزیر اعظم کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ 20 جنوری 1972 کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجئینرز کی ایک میٹنگ وزیر اعظم بھٹو کی زیر صدارت ہوئی، جسے ”ملتان میٹنگ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنسدانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور فہیم حسین سمیت بہت سے سائنس دان شامل تھے۔ اسی دوران میں 1974ءمیں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی سال یعنی 1974ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور ”کہوٹہ ریسرچ لیباٹریز“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آگے کی داستان سب کو معلوم ہے۔
بھارت نے جب 1998ئ میں پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے غلط فہمی تھی کہ پاکستان بھارت کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ پاکستان کے بارے میں لگائے ہوئے اسکے اندازے غلط تھے اور پاکستان نے بھارتی ”دھمکی“ کا جواب 28 مئی 1998ءکو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے ”چاغی اول“ کی شکل میں دیا۔ 30 مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ ان دھماکوں کا مقصد صرف دفاع ِ پاکستان تھا۔ بصورت دیگر پاکستان روز اول سے چاہتا تھا کہ اس خطے میں ایٹمی دوڑ کا آغاز نہ ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان بھارت کو کئی ایسی تجاویز دے چکا ہے۔ ان میں1978 ءمیں پاکستان نے یہ تجاویز دیں کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا اعلان کریں اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔ 1979ءسے میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستا ن اور بھارت ایک ساتھ NPT پر دستخط کر دیں اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی دے دیں۔ 1987ءمیں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشترکہ اعلان کریں۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی ان کوششوں کو رد کیا کیونکہ اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔
پاکستان کے ایٹم بم کی تیاری میں آنے والی بہت سی حکومتوں کا بھی ہاتھ اور حصہ تھا لیکن اگر 20 جنوری 1972ءکو پاکستانی حکومت نے درست سمت میں فیصلہ نہ کیا ہوتا تو شاید 1998ءمیں، پاکستان بھارت کی خواہش کیمطابق گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا۔ تایخ سے یہ سبق حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کس طرح ایک غلط یا درست اور بروقت فیصلہ قوموں کی کی تقدیر بدل دیتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن