نظریاتی پاکستان اور نظریاتی اسرائیل ایک حقیقت ہے۔ لیکن نظریاتی اسرائیل ایک تلخ نہیں انسان دشمن حقیقت ہے اسرائیل اور پاکستان کے نظریاتی وجود کا فرق واضح ہے کہ پاکستان میں مذہبی تفریق اور امتیاز کو انسانی بنیادوں کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے اور کسی بھی مذہبی اقلیت سے اس کے انسانی حقوق نہ سلب کئے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کے آئینی اور قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ اقلیتیں اپنے نمائندگان کے ذریعے سے اپنے حقوق کی پاسداری کیلئے آواز اٹھاتی ہیں اور بسا اوقات اکثریت کی نسبت سے زیادہ مراعات کے مستحق قرار پاتی ہیں۔لیکن اسرائیل میں فلسطینیوں کو زیر جبر رکھنے کیلئے ان کے معاشرتی قوانین اور سیاسی رویے اس قدر ہولناک ہیں کہ کسی بھی وقت اسرائیل کے فلسطینی باشندوں کو زیر عتاب لانے کیلئے جو قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے اس جواز کے سامنے اہل فلسطین کے حامی ان کے ہم مذہب خاموش ہو کر رہ جاتے ہیں اور بین الاقوامی انسانت پروری کی تنظیمیں بالکل ہی گونگی ہو جاتی ہیں۔ اور قرار داد مذمت کیلئے بھی اسطرح سے سوچتی ہیں کہ شاید آسمان گر پڑے گا اور زمین پھٹ جائے گی۔اسرائیل کی نظریاتی ریاست کے مقاصد میں صہونیت کا فروغ اول ترین مطمع نظر ہے اور اسی مقصد کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور مذموم مقصد ہے کہ مسلمان کو مشرق وسطیٰ ہی سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے مٹا دیا جائے۔اپنے مقصد کے دوسرے مذموم حصے کی تکمیل کیلئے وہ محض فوجی جبری کارروائی ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا بھر میں ذہین اور تیز دماغوں کی خریداری کیلئے وہ مہم جوئی کرتے ہیں اور باقاعدہ منظم طریقے سے لوگوں کو اپنے دام تزویر میں پھنساتے ہیں۔ ان کی دماغ سازی کا خاموش اہتمام کر تے ہیں اور بالآخر ان کو اپنے مذموم مسلم کش مقاصد کی تکمیل کیلئے بہت ہی سہولت سے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے جو انداز اختیار کرتے ہیں اس کا احساس استعمال ہونے والے افراد کو بالکل بھی نہیں ہو پاتا۔
خیالات، جذبات ، علم ، ہنر اور جملہ مقدور بھر صلاحیتوں کو ایک ایسے تنگ گھیرے میں نرمی اور سہولت سے قید کر لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا ہے کہ وہ صہونیت کے مخصوص اور کارگر ایجنڈے پر عمل کر رہا ہے۔ اسرائیل انسان مار سازشوں کا جال ساتوں براعظموں میں ہمرنگ زمین ہو کر پھیلا ہوا ہے کسی بھی قومیت اور رکسی بھی سلطنت میں اس کے زہریلے اثرات کو کم کرنے یا ختم کرنے کی کوئی بھی ترکیب اور تدبیر نہیں کی جاتی کیونکہ انسانوں کو منظم وغیرہ منظم طریقوں سے اپنے نشان ہلاکت پر رکھنے کے جو طے شدہ انداز اختیار کئے جاتے ہیں ، سادہ لوح بھولے عوام اور مکرو فریب کے شکار و حکمران ایسے مبنی بر ظلم انداز کو اپنی بقاء اور دنیاوی اعزاز کا نشان امتیاز سمجھتے ہیں۔کسی نے کہا تھا کہ اقوام کے خیالات کو محکوم بنانے کیلئے اہل قلم کو خریدا جائے، دوسرے روشن خیال نے لقمہ دیا کہ اہل قلم کی بجائے قلم ہی کو خرید لیا جائے ، ایک تیسرے قوم بندھو نے رائے دی کہ قلم سے پہلے سیاہی اور کاغذ کو قبضے میں لیا جائے پہلے دو دانشوروں نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اس قدر آگے کیوں بڑھا جائے۔ جواب میں قوم بندھو بولا کہ کسی بھی کام کی تکمیل کو پورے طریقے سے سر انجام دینے کیلئے ضروری ہے کہ اسباب کی جملہ موجودات پر قبضہ کر لیا جائے اور انسانی امکان سے کسی بھی شے کو اپنی دسترس سے باہر نہ رکھا جائے۔ اسرائیل کی نظریاتی دنیا میں عملی قوت کو رائج کرنے کیلئے انسانی اسباب کے امکانات کو عملاً زیر کرنے کیلئے اس طرز کی کوششوں پر متحرک رکھا جاتا ہے اور پوری دنیا صہیونی قبضے کو مکمل کرنے کا یہ ایجنڈا ہے اور آج کے تمام عالمی فسادات میں اسی طرز کی فکر کار فرما ہوتی ہے۔
ذرا اس طرف بھی دیکھ
Jan 20, 2017