لاہور میں اپوزیشن کا پاور شو علامہ طاہر القادری کی قیادت میں بہت بُری طرح فلاپ ہو گیا۔ لاہوریوں نے زرداری اور عمران کو بھی ایک طرح سے مسترد کر دیا ہے۔ کیونکہ علامہ صاحب کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ البتہ زرداری اور عمران پاکستانی سیاست کے دو بہت اہم رہنما ہیں۔ اس دن پولیس اہلکاروں کی تعداد جلسے کے شرکاء سے زیادہ تھی۔ اہل لاہور نے پورے پنجاب کی نمائندگی کی ہے اور محسوس ہو رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔ کیونکہ اپوزیشن کے اس جلسے کے بعد حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی مشکلات بڑھنے کی بجائے کم ہو گئی ہیں۔دراصل زرداری اور عمران آج بھی 1970ء والی سیاست کر رہے ہیں۔ انہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ اب عوام کو جھوٹے وعدوں، مخالفین پر الزام تراشیوں سے اور سبز باغ دکھا کر اپنے پیچھے نہیں لگایا جا سکتا۔ گزشتہ تقریباً پندرہ برس میں عوام بہت باشعور ہو گئے ہیں۔ اب عوام کا حافظہ بھی پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے۔ عمران خان نے نعرہ تو تبدیلی کا لگایا تھا لیکن بعد میں شیخ رشید سمیت پی پی کے پٹے ہوئے سیاست دانوں کو ساتھ ملا کر اپنے ووٹروں کو مایوس کر دیا۔ اب عمران کے چاہنے والے بھی عمران کی سیاسی کم مائیگی اور ڈرامہ بازی سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ ساڑھے چار برس میں عملی طور پر تبدیلی لا کر دکھائی ہے۔ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا اور منصوبوں کی تکمیل کا موازنہ کسی دوسرے صوبے سے نہیں کیا جا سکتا۔ میاں شہباز شریف نے جنوبی پنجاب سمیت پورے پنجاب میں ایسے ایسے پراجیکٹ مکمل کر کے دکھائے کہ جس کی نظیر گزشتہ کسی پارٹی کے دور حکومت میں نظر نہیں آتی۔ اب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ کام کس نے کیا ہے۔ مسلم لیگ کا دوسرا سب سے بڑا کارنامہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا تقریباً خاتمہ کر دینا ہے۔ اب لوڈشیڈنگ صرف ان علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں لوگ بجلی چوری کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں بجلی چوری ہو رہی ہو وہاں کی تو بجلی ویسے ہی کاٹ دینا چاہئے۔ حکومت اگر لوڈشیڈنگ پر اکتفا کر رہی ہے تو یہ اس کی مہربانی ہے۔ تیسرا بڑا اور اہم کام مسلم لیگ (ن) کا سی پیک منصوبے کی تیزی سے تکمیل ہے۔ جس نے صرف بھارت ہی نہیں امریکہ تک کی نیندیں اُُڑا کر رکھ دی ہیں۔ یہ اقتصادی راہداری پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی ضامن ہے۔ پاکستان کی معیشت پہلے کی نسبت بہت مضبوط ہو گئی ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ گویا ایک ایسی ترقی کی بنیاد مسلم لیگ (ن) نے رکھ دی ہے جس پر مستقبل قریب میں بہت شاندار عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ عوام یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور عمران خان کے پاس کے پی کے کی حکومت تھی۔ اگر عمران نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا تو اپنے صوبے میں تبدیلی لا کر دکھاتے۔ لیکن انہوں نے ساڑھے چار سال صرف دھرنوں، ریلیوں، جلسوں، جلوسوں اور احتجاج میں ضائع کئے۔ ملکی معیشت کو کمزور کیا۔ ترقیاتی کاموں کی تکمیل کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ اپنے صوبے میں میٹرو سروس شروع کرنے کے بجائے پنجاب میں اورنج لائن ٹرین منصوبے کے خلاف عدالت سے سٹے آرڈر لے کر دو سال اس منصوبے کو رکوائے رکھا۔ انہوں نے صرف نواز شریف کو کرسی سے اُتارنے کے لئے اپنی توانائیاں، پیسہ اور وقت برباد کیا۔ نواز شریف تو کرسی سے اُتر گئے لیکن حکومت تو مسلم لیگ (ن) ہی کی رہی۔ کیا مل گیا عمران خان کو اس ساری پریکٹس کے بعد؟اسی طرح اگر سندھ میں دیکھا جائے تو پی پی کی حکومت ہے۔ لیکن زرداری نے وہاں کتنے پراجیکٹ کرائے۔ کتنے ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے۔ کیا تھر کے لوگوں کی زندگی آسان کرنے کی کوئی سبیل کی گئی؟ کیا کراچی کو روشنیوں کا مثالی شہر بنانے پر توجہ دی گئی؟ کیا عدل و انصاف عوام کو مہیا کرنے کے لئے کچھ کیا؟ کیا سندھ کے دیہی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی فکر کی؟ ان سب سوالوں کا جواب ہے، نہیں، نہیں، نہیں … اُلٹا عدالتوں کو کراچی کا کچرا صاف کرنے کے احکامات صادر کرنا پڑے۔ ہوڈنگز اور بل بورڈز اُتارنے اور قبضہ مافیا سے سرکاری املاک واپس لینے کے احکامات جاری کرنا پڑے… سندھ حکومت نے کیا کیا؟ ہاں اگر کچھ کیا تو وہ یہ کہ جو بجٹ ترقیاتی کاموں کے لئے وفاقی حکومت نے دیا وہ سب مل بانٹ کر ہڑپ کر لیا۔ لیکن ان کے خلاف تو نیب نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ وہاں تو کرپشن کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ جہاں کی کرپشن عوام کو بھی نظر آ رہی ہے۔ لیکن نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگا کر اسے عدالتوں میں گھسیٹا بھی گیا، اور کرپشن ثابت نہ ہونے کے باوجود نااہل بھی کر دیا گیا۔اپوزیشن کے فلاپ شو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عوام کام کرنے والی پارٹی کو ہی ووٹ دیں گے اور کام صرف مسلم لیگ (ن) نے کیا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جس نے زرداری اور عمران کو ایک مولوی کے قدموں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے اور طاہرالقادری کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنا سیاسی قد بڑھانے کی بچگانہ سوچ میں مبتلا کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) والے بھی اقبال کا یہ شعر یاد کر لیں!
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں