چند سال قبل مجھے امریکی ریاست ورجینیا میں ایک اسلامی کانفرنس میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔اس کانفرنس میں یہودی،عیسائی اور مسلمان علماء اور دانشوروں نے اتحاد بین المذاہب پر مقالے پڑھے اور تقاریر کیں۔ڈاکٹر نارمن ایک یہودی دانشور تھے جو امریکی صدر ریگن کے مشیررہ چکے تھے۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام کے عمیق مطالعہ سے میں نے یہ حقیقت پائی ہے کہ اسلام دین عدل ہے۔اسلام مساوات و انصاف کے قیام کا دین ہے۔ بعدازاں میں نے ڈاکٹر نارمن کو اپنی انگریزی تصنیف (THE MESSAGE OF ISLAM) دی اور ان کی تائید کی کہ اسلام کی تعلیمات کا بنیادی نکتہ قیام عدل و انصاف ہے اور سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر 8 کی وضاحت کی جس میں ارشاد ربانی ہے ’’بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ قرآن مجید میں عادلین و مقسلین کی تعریف کی گئی ہے جبکہ کاذبین، مترین، فاسقین، منافقین، مشکرین اور کافرین کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ سورۃ الجمعہ اور سورۃ الصف میں ظالمین کو گمراہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح سورۃ المنافقون کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے۔ ’’بے شک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ یہی الفاظ سورۃ الصف کی آیت نمبر 5 میں استعمال ہوئے۔گویا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اللہ عادل ہے۔ عدل دوست ہے اور عادلین کو دوست رکھتا ہے۔اﷲ عدل کو پسند کرتا ہے تو عادل کو بھی پسند کرنا منطقی و استدلائی نتیجہ ہے۔جو شخص مسند عدل و عدالت پر بیٹھ کر انصاف نہیں کرتا اس کا شمار ظالمین میں ہوتا ہے۔عدل کا متضاد لفظ ظلم ہے۔ جب ایک جج جسے منصف کہا جاتا ہے وہ عادل نہیں رہے گا تو وہ صف ظالمین میں نظر آئے گا اور وہ خدا کے غضب کا شکار ہو گا۔ حضرت علی خلیفہ وقت تھے۔ ذرہ کے تنازعہ پر قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے۔ مدمقابل یہودی تھا۔موقع کے گواہ نہ ملے۔قاضی نے بیٹوں کی گواہی قبول نہ کی۔مقدمہ ہار گئے۔یہودی اسلام کا نظام عدل دیکھ کر لرز گیا۔شرمندہ ہوا۔ معافی کا خواستگار ہوا اور ذرہ واپس کی۔ آج پاکستان میں عدالتوں کا یہ حال ہے کہ ہر شخص کہتا ہے’’خدا تھانہ کچہری سے ہمیں محفوظ رکھے‘‘ گویا جہاں عدل و انصاف کی توقع ہوسکتی ہے وہاں انصاف کی توقع نہیں‘ وہاں انصاف ناپید ہے۔ عدل و انصاف کے قیام کے حوالے سے جو تمہید میں نے باندھی ہے اس کا محرک پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ بھینسوں کو ٹیکے لگا کر دودھ میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ان انجکشنوں سے کینسر کی بیماری پھیل رہی ہے ۔آئندہ بھینسوں کو انجکشن لگانے کی سزا دی جائے گی۔ میری رائے میں ادویات کی کمپنیاں جو یہ انجکشن درآمد کرتی ہیں ان کو احکامات جاری کیے جائیں اور جو بھی یہ ٹیکے درآمد کرے یا مارکیٹ میں فروخت کرے یا بھینسوں کو لگائے اسے دس سال کی سزا دی جائے۔ جسٹس صاحب نے یہ بھی حکم صادر فرمایا کہ تعلیم و صحت کے محکموں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ یہ دو محکمے بنیادی انسانی ضروریات کے آئینہ دار ہیں۔ سڑکیں، پل، میٹرو بسیں ضروری سہی لیکن یہ تعلیم و صحت معاشرہ پر مقدم نہیں۔ یہ تاریخی اعلان ہے۔ترقیاتی منصوبوں میں حکمرانوں کو حرام کی دولت سمیٹنے کے مواقع میسر ہیں۔ یہاں سے دولت لوٹ کر بیرون ممالک میں جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ غریب عوام کو سرکاری ہسپتالوں میں نہ سینئر ڈاکٹرز نظرآتے ہیں نہ سر درد تک کی کوئی گولی میسر ہے۔ سول اور ملٹری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگا کر ڈاکٹروں کو صبح 9 بجے سے شام کے 4 بجے تک سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی پر حاضر رہنے کا پابند کیا جائے۔ چیف جسٹس صاحب نے شاہ زیب قتل کو دوبارہ کھولنے کے احکامات جاری کئے ہیں جو عدل و انصاف کی فراہمی اور قیام عدل کا عندیہ ہے۔ معاملہ کسی ایک کیس کا نہیں۔معاملہ قیام عدل و انصاف کا ہے۔ پیغمبر اسلام سے قبیلہ مخزومیہ کی ایک خاتون کا چوری کا کیس پیش کرکے اس کی معافی کی سفارش حضرت اسامہ کی وساطت سے کی گئی۔آپ غضبناک ہوگئے۔فرمایا ’’پہلی قومیں اسی لئے نیست و نابود ہوگئیں کہ ان کے امیروں کے لئے ایک قانون اور غریبوں کے لئے دوسرا قانون تھا۔ خدا کی قسم اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتیں تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا‘‘۔ گویا انصاف کا قیام ہی قیام دین اور قیام انسانیت ہے۔ اسلام میں قتل عمد کی سزا موت یعنی قصاص ہے اور قتل غیر عمد کی دیت ہے۔ قتل عمد کی وارث اسلامی ریاست ہے۔ اہل ثروت اور اہل زور و زر دھونس، دھاندلی اور دھن سے سرعام قتل کرکے بچ جاتے ہیں۔پاکستان کے سیاست دان انقلابی اقدامات میں ناکام ہو چکے ہیں۔ عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے۔ جرمنی نے انگلستان کوتہ وبالا کر دیا۔ شکست فاش کے اثرات نمودار ہوئے۔ وزیراعظم برطانیہ ونسٹن چرچل سے پریس کانفرنس میں صحافی نے سوال کیا اور برطانیہ کی شکست کا اندیشہ ظاہر کیا۔ چرچل نے الٹا صحافی سے سوال کردیا۔’’کیا برطانیہ کی عدالتوں میں عوام کو انصاف مل رہا ہے‘‘۔ صحافی نے جواب دیا ’’ہاں برطانیہ کی عدالتیں انصاف فراہم کرتی ہیں۔‘‘ چرچل نے کہا کسی فکر کی ضرورت نہیں۔جو قوم انصاف فراہم کرے وہ شکست نہیں کھا سکتی۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ ایسا ہی ہوا جرمنی کو شکست ہوئی۔ ہٹلر ظالم تھا۔فاشسٹ تھا۔ خود بھی بے نام و نشان ہوا اور جرمنی کے بھی ٹکڑے کروا گیا۔یہ بات بڑے افسوس سے کہی جاتی ہے کہ پاکستان کی عدالتوں مین انصاف کا فقدان ہے۔ ماسوائے چند دیانتدار اور خداترس ججوں کے آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ’’وکیل کرنے کے بجائے جج کرلو‘‘ اب ایک محاورہ بن چکا ہے۔ انفرادی مقدموں کا تو کیا رونا قومی اور سیاسی مسائل میں بھی بددیانتی کی انتہا ہو گئی ہے۔ ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے آئین اور قانون کے بخیئے ادھیڑ دیئے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو عدالتوں نے جائز قرار دیا۔ جو جج مارشل لاء کے حق میں فیصلہ دے کر آئین پاکستان کی دھجیاں اڑا دیں ان سے عدل و انصاف کی توقع جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک دانشور، ادیب، خطیب، روشن ضمیر اور عادل جج جسٹس رستم کیانی کا نام تاابد زندہ رہے گا۔ انہوں نے ایوب خان کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا اور قانون کو سربلند کردیا۔ بے باک و نڈر منصف تھے۔ ان کی کتاب ’’افکار پریشاں‘‘ سرمایہ دل و جاں اور نقد ایمان و عرفان ہے۔