کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاﺅن میں جعلی پولیس مقابلے میں قبائلی نوجوان اور کپڑوں کے تاجر نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزام میں ایس ایس پی ملیر را انور کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، مبینہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے علاوہ دیگر تین افراد کو قتل کرنے کا بھی الزام ہے ۔تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنااللہ عباسی نے را ﺅانوار کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جس پر کارروائی کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی ملیر را ﺅانوار کو عہدے سے ہٹاکر ایس ایس پی عدیل چانڈیو کو ملیر کا چارج دے دیا ہے ۔ بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف شہریوں کے شدید احتجاج پر راﺅ انوار کے خلاف تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تھی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے گناہ اور پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا۔ ذرائع کے مطابق، تحقیقاتی کمیٹی کو مقتول نقیب محسود کے خلاف شواہد نہیں ملے، راانوار کی جانب سے فراہم نقیب اللہ کا کرائم ریکارڈ کسی اور کا ہے۔ آئی جی سندھ کا کہنا ہے را ﺅانوار کے خلاف انکوائری مکمل ہونے پر مزید کارروائی ہوگی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے ایڈیشنل آئی جی ثنااللہ عباسی، ڈی آئی جی شرقی سلطان خواجہ اور ڈی آئی جی جنوبی آزاد خان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی، ایس ایس پی ملیر راﺅ انوار کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا، راو انوار نے نقیب اللہ محسود کے جرائم کا ریکارڈ پیش کیا جس میں ایف آئی آر اور چالان بھی شامل تھا۔ بعد ازاں را ﺅانوار نے کمیٹی پر بھی اعتراض اٹھا دیا۔ ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے پولیس مقابلہ مشکوک قرار دیا، را انوار اور دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے، را انوار کو عہدے سے ہٹانے اور گرفتار کر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی سفارش کی گئی۔ ذرائع کے مطابق را ﺅانوار نے نقیب اللہ کے غیر شادی شدہ ہونے کا غلط دعوی کیا جبکہ دیگر دعوے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں، را ﺅانوار کی نقیب اللہ کے خلاف 2014 کی ایف آئی آر بھی جعلی ہے جبکہ نقیب اللہ کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ آئی جی اور سندھ حکومت کو ارسال کی گئی تھی۔گزشتہ روزنقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے کیخلاف کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں بھی احتجاج کیا گیا،مشتعل افراد نے سپر ہائی وے پر ہنگامہ آرائی کی اور گنا منڈی کے قریب ٹائروں کو آگ لگا دی، مظاہرین نے بس کو روک کر توڑ پھوڑ کی، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی۔ مظاہرین نے پتھرا کر کے پولیس موبائل کے شیشے توڑ دیئے، پولیس اہلکاروں نے بھی جوابی پتھرا ﺅکیا۔دوسری طرف ایس ایس پی را انوار نے کہا کہ نقیب اللہ کی ہلاکت پر بنائی جانیوالی تحقیقاتی کمیٹی کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کرتا ہوں اور ایسی کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتا جس میں میرے مخالفین کو شامل کیا گیا ہو، کئی گھنٹے تک میری پولیس پارٹی کو حبس بیجا میں رکھا گیا اور میرے خلاف بیان دینے پر اکسایا گیا، میں تو مقابلے کی اطلاع ملنے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچا تھا اور اس وقت تک 4 دہشتگرد مارے جاچکے تھے۔ ادھر نقیب اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اسے گھر سے حراست میں لینے کے بعد ماورائے عدالت جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔واضح رہے کہ را انوار پر اس سے پہلے بھی جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ نوجوانوں کو ہلاک کرنے اور زمینوں پر قبضے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ انہیں 2016 میں بھی معطل کیا گیا تھا تاہم بعدازاں اعلی سطح سے آنے والے دبا کے بعد کچھ ہی عرصے میں بحال کردیا گیا۔ 2016 میں ایک انٹرویو میں را انوار نے بتایا تھا کہ وہ اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس مقابلے اور ان میں درجنوں مبینہ ملزمان کو ہلاک کرچکے ہیں۔