عدلیہ مکمل آزاد، لوگوں کے کہنے سے فرق نہیں پؔڑتا، ملک میں صرف آئین کی حکمرانی ہوگی، جمہوریت کو پامال نہیں ہونے دینگے: چیف جسٹس

 چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اب ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی رہے گی، ہم جمہوریت کوپامال نہیں ہونے دیں گے، ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے، نئی نسل ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ہم کیا کرکے جاتے ہیں۔ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم مصلحتوں کی بنیاد پر بھی نہیں کہہ سکتے،سپریم کورٹ ایک آزاد ادارہ ہے اور لوگوں کے کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔لاہور بار سے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے کہنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عدلیہ مکمل آزاد ہے، آپ کو اس پر فخرہونا چاہئے۔ ٹیم کا کپتان تو ساری ٹیم کا محتاج ہوتاہے۔ بنچ کے تمام لوگ دیانتداری اور قابلیت کا بہترین نمونہ ہیں اور آصف سعید کھوسہ تو میرے بنچ کا اہم حصہ ہیں۔ اعتراف کرتاہوں کہ بنچ میں سب سے کم قابلیت والا میں خود ہوں۔ بار اور بنچ کے درمیان تعلق سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ بار اوربنچ جسم کے دوحصے ہیں، بار اور بنچ میں کوئی مفلوج ہوجائے تو ادارہ مفلوج ہوجاتا ہے۔ یہ تصور نہیں ہونا چاہئے کہ جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے کو کاٹے گا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جج بننا ایک امتحان ہے۔ عوام کو انصاف دینا ہمارا فرض ہے، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرکے مظلوم کی دادرسی کرنی ہے۔ روز محشر سب سے پہلے منصف کا حساب ہوگا اور اسے جزا ملے گی۔ اگر ججز کو پانچ پانچ ماہ فیصلے نہیں لکھنے تو عہدے چھوڑدو کوئی اورکام کرلو۔ میں نے اپنے بیوی اور بچوں کوکہہ رکھاہے کہ ایک سال میں آپ کا نہیں۔ اس ملک کو بہت چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہم متحد ہیں اور جب تک ہم میں جذبہ ہے ہم ہر مشکل کا سامنا کریں گے۔ لوگ بہت مظلوم ہیں ان پر ظلم ہورہا ہے۔ مجھے پینشن کیس سن کر بہت شرم آئی، جس میں ادارہ ملازم کو 472روپے پنشن دے رہاہے، جنہیں ان مظلوموں کی دادرسی کرنی ہے وہ تو نہیں کررہا لیکن جج صاحبان کو انہیں انصاف فراہم کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تعلیم، ایماندارقیادت اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے۔ نئی نسل ہماری طرف دیکھ رہی ہے کہ ہم کیا کرکے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا برطانیہ میں کالاکوٹ نہیں گاو¿ن پہنا جاتا ہے۔ وکیل فیس نہیں لیتے۔ بار بنچ کی اور بنچ بار کی طاقت ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا عدلیہ کا کام فتنہ ختم کرنا ہے۔ انصاف فراہم کرنا کسی پر احسان نہیں ہماری ذمے داری ہے۔ قانون کے مطابق انصاف فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کسی جج کو اختیار نہیں اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرے۔ چیف جسٹس نے کہا ساری زندگی خدمت کرنیوالے ادارے سے پنشن لینے کیلئے بھی سفارشیں کرنا پڑتی ہیں، ملازم جب ریٹائرڈ ہوجاتا ہے اسکا افسر ہی پینشن میں رکاوٹ بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا جنھوں نے مظلوموں کی داد رسی کرنی ہے وہ کر نہیں پا رہے۔ قوموں کی زندگی میں چیلنجز آتے ہیں مگر قومیں کھڑی ہو جاتی ہیں، ایک سال ایمانداری سے کام کریں تو اس کی لت پڑ جائے گی۔ ان کا کہنا تھا نہال ہاشمی کیس میں جسٹس کھوسہ کو بنچ کا سربراہ مقرر کرتا ہوں اور جلد سماعت ہوگی۔ ہم نے تحمل اور بردباری سے انصاف فراہم کرنے کا کام کرنا ہے۔ ہمیں تعلیم، ایماندار قیادت، مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا عدلیہ مکمل آزاد ہے‘ آپ کو اس پر فخر ہونا چاہئے۔ میں کس کس ہیرے کا نام لو ںسب لوگ جید اور قابل ہیں۔ وکالت ڈاکٹری کے پیشے سے کسی طور کم نہیں ہے۔ وکالت اور ڈاکٹری کے شعبے ہر حوالے سے قابل ستائش ہیں۔ دریں اثنائچیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کوطلب اور یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کو لا کالجز کی انسپیکشن اور ان کی صورتحال سے متعلق بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیدیا۔ ہفتہ کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں غیر معیاری لا کالجز اور نجی میڈیکل کالجز میں اضافی فیسوں کے خلاف مقدمات کی الگ الگ سماعتیں ہوئیں۔ جس میں ملک بھر کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہونے پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کو فوری طلب کرلیا۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کو لا کالجز کی انسپکشن اورکالجز کی صورتحال سے متعلق وائس چانسلرز کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نہ وکالت کے لئے انٹری ٹیسٹ ختم کردیں۔ اگر نقل کرکے ہی وکیل بنناہے تو ایسے سسٹم کو ہی ختم کردیں۔ ایسے وکیل پیدا نہیں کرنے جو صبح پان کی دوکان چلاتے ہوں اور بعد میں ڈگری حاصل کر لیں۔ ادارے قائم رہنے چاہیں شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں، افسوس ہم اپنے ادارے مضبوط نہیں کر رہے۔ ایسے این ٹی ایس کا کیا فائدہ جہاں نقل کر کے امتحان دیا جاتا ہو۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا سمجھ نہیں آتی اتنی پرائیوٹ یونیورسٹیاں کھل کیسے گئیں۔سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تمام سرکاری یونیورسٹیز کو نئے الحاق کرنے اور ملک بھر کی ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹس کو لاکالجز کے کیسز پر حکم امتناعی جاری کرنے سے روک دیا۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس نے یونیورسٹیز سے الحاق کیے گئے لا کالجز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے سینیٹر قانون دان حامد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی۔دوسری جانب نجی میڈیکل کالج میں اضافی فیسوں کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈاکٹر عاصم کی عدم پیشی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کو بلایا تھا لیکن سننے میں آیا ہے کہ وہ باہر جارہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے وکیل کو فوری بلائیں ورنہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل)میں ڈال دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے پاس ہی آئیں۔ ہر یونیورسٹی نے اپنا نظام تعلیم بنا لیا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کر رہا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ اتنی زیادہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں کیسے بن گئیں۔چیف جسٹس نے عدالت میں میڈیکل کالجز کے پرنسپلز کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیش نہ ہونے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ میڈیکل کالجز کے افسران کو بتایا جائے کہ وہ ملک میں واپس آ جائیں۔ چیف جسٹس نے ماحولیاتی آلودگی ازخود نوٹس کیس میں سیکرٹری ماحولیات پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ماحولیات کا حال کتنا بُرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ماحولیات سب سے نکما محکمہ ہے۔جب پنجاب حکومت نے کوئی منصوبہ بنانا ہو تو محکمہ سب اچھا کی رپورٹ دیتا ہے۔ محکمہ ماحولیات کی غیر ذمے داری کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ عدالت نے سیکرٹری ماحولیات سے استفسارکیا کہ کیا اورنج ٹرین کے این او سی آپ نے جاری کئے؟،آپ سیکرٹری ماحولیات ہیں کیا آپ کے پاس آلودگی چیک کرنے والا آلہ موجود ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے ،عوام کی صحت سے کھیلا جا رہا ہے۔ عدالت نے ہسپتالوں کافضلہ ٹھکانے نہ لگانے پر آج سیکرٹری صحت سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

ای پیپر دی نیشن