نظریہ پاکستان ٹرسٹ ۔ مجید نظامی اور چرچل

قیام پاکستان کے بعد اسکی سرحدی اور نظریاتی حفاظت ایک بڑا کام تھا۔سرحدی حفاظت کیلئے دنیاکی بہترین فوج موجود تھی۔ نظریاتی حفاظت کا مورچہ جناب حمید نظامی اور ان کے بعد جناب مجید نظامی نے سنبھالا۔ یہ کام آسان نہیں تھا۔ پاکستان میں بھارت کے بالواسطہ اور بلاواسطہ ہم نوا اپنے اپنے انداز میں پاکستانی قوم کے چھوٹے بڑے ہر طبقے کی برین واشنگ میں مصروف تھے۔ میڈیاکی سطح پر روزنامہ نوائے وقت نظریاتی ڈھال بنا رہا۔ جناب مجید نظامی اور ان کی دعوت پر بہت سے دوسرے نظریاتی اور کھرے پاکستانیوں نے پاکستان کو بھارت سمیت باہرکے دشمنوں سے بچانے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی۔ نوائے وقت تو میدان میں تھا ہی اور بھی بہت کچھ ضروری تھا۔ تحریک پاکستان کے کارکنوں کی قربانیوں کا عملی اعتراف اور عزت افزائی تحریک پاکستان میں دی گئی قربانیوں کا ریکارڈ محفوظ کرنا، نسل نو کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرنا، تحریکی قیادت سے آگاہ رکھنا، خاص طور پر قائد اعظم اور مادر ملت اور ان کے رفقا کی سوچ کو عام کرنا۔ پاکستان کو ناکام بنانے کی سوچ رکھنے اور اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کو منہ توڑ جواب دینا، یہ اورایسے ہی دوسرے مقاصد کا حصول ایک ہفت پہلومشن تھا۔ 109 شاہراہ قائد اعظم پر جولائی 1992ءمیں معرض وجود میں آنے والے ادارے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ اس مشن کو لےکر چلے۔ پہلے غلام حیدر وائیں مرحوم (سابق وزیر اعلیٰ پنجاب) ٹرسٹ کے چیئرمین بنے ۔ 1999ءسے 2014ءتک جناب مجید نظامی نے چیئرمین کی ذمہ داریاں سنبھالے رکھیں ا ور اب جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ (سابق صدر) نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین اورجسٹس (ر) محبوب احمد تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں۔ دو قومی نظریہ اور پاکستان سے محبت کی علامت سلہٹ ریفرنڈم کے ہیرو محمود علی مرحوم کےساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے کامیاب منتظم شاہد رشید کو اہم ذمہ داری دینے کا مقصد بھی شاید اسی پس منظر کے حوالے سے تھا کہ وہ نظریہ پاکستان سے کمٹڈ ہونے کا ثبوت دے چکے تھے۔ اتنی طویل تمہید کا مقصد یہ تھا کہ جناب مجید نظامی اور انکے ساتھیوں کے سامنے ایک بڑا مشن تھا۔
اب اگر کوئی کہتا ہے کہ” ٹرسٹ والے وہ کچھ نہیں کر پائے جو ہونا چاہئے تھا‘ نہیں ہوا۔“ سب جانتے ہیں کہ محترم مجید نظامی عمل کے قائل تھے۔ پہلے دو قومی نظریہ کے علمبردار روزنامہ نوائے وقت کو تمام مزاحمت اور مشکلات کے باوجود مقبولیت کی بلندیوں تک لے گئے۔ روزنامہ نوائے وقت کا ایک بڑے اور مضبوط میڈیا ہاﺅس میں ڈھلنے کا مطلب یہ بھی تھا کہ وہ سوچ‘ پالیسی اور نظریہ‘ دو قومی نظریہ مقبول اور مضبوط ہوا جس کا علمبردار جناب مجید نظامی کی قیادت میں اور انکے بعد رمیزہ مجید نظامی کی قیادت میں ادارہ نوائے وقت ہے۔ ادارہ نوائے وقت کے استحکام کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھ کر انہوں نے نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے خیال کو عملی شکل دینے کیلئے مضبوط اعصاب کے مالک اور نظریاتی احباب کی ٹیم ساتھ ملائی تو طے شدہ مشن سے ہم آہنگ عمارتیں اور انکے اندر شب و روز کی سرگرمیاں رنگ لانے لگیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ قومی سطح کے ایسے اداروں کی کارکردگی پر رائے دینے کا حق سب کو ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ رائے دینے والے سے الفاظ سے خلوص کی خوشبو آتی ہو۔ ایسی تجاویز سامنے آئیں جن کو اپنایا جا سکے اور پہلے سے جاری کام کو کوئی نیا رنگ دیا جا سکتا ہو۔ اب پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ اس مضبوط نظریاتی مورچے کے ذریعے اب تک جو کچھ حاصل کیا گیا‘ اسکے علاوہ بھی کچھ ہو سکتا تھا۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان و رکرز ٹرسٹ کے ارکان نے پاکستان بھر میں موجود تحریک پاکستان کے ورکروں کو ڈھونڈا۔ 1947ءکے جوانوں میں سے بیشتر بابے تھے۔ طلائی تمغوں کی علامت سے ان کوعزت دی۔ ان کی تاریخی جدوجہد کو ان کی زبان اور الفاظ میں محفوظ کرنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ تحقیق‘ تدوین اور نظریاتی نشرواشاعت کو ٹارگٹ یعنی متعلقہ حلقوں‘ عام شہریوں اور نسل نو تک پہنچانے کے ٹھوس انتظامات کئے۔ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال ہوا۔ تسلسل کے ساتھ سکولوں‘ کالجوں سے طلباءکے گروپوں کے گروپ مدعو کئے گئے۔ تربیت یافتہ مقررین کی دور دراز کے تعلیمی اداروں تک رسائی ممکن بنائی گئی۔ سمر سکولوں کا احیائ‘ موبائل پیغام بر‘ سوشل میڈیا کا استعمال‘غرض ہر کام کی منصوبہ بندی ہوئی۔ سیمینار‘ جلسے‘ مذاکرے‘ مباحث غرض جو ممکن تھا ہوا اور ہو رہا ہے۔ ابھی دو دن پہلے نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری جنرل شاہد رشید نے ایوان قائداعظم (جو مجید نظامی کے ایک اور خواب کی تعبیر ہے) کی عظیم الشان زیرتعمیر عمارت‘ اس کے جزوی فنکشنل ہونے اور تکمیل کے بعد مجوزہ سرگرمیوں جو تفصیل کی‘ وہ ہر شخص کو مطمئن کرنے کیلئے کافی ہے۔ جو نہیں ہو وہ یہ تھا کہ کسی نے اس اہم مورچہ کو کاروبار یا ذاتی منعفت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ایک اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ محبی مجید نظامی کی ٹیم کے لوگ یا تو ”بابے“ ہیں یا تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ کے پرچار کے اس اہم ترین مورچہ سے لاتعلق ہیں۔ یہ اعتراض براہ راست بہت اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان، جسٹس محبوب احمد، جسٹس خلیل الرحمان، جسٹس آفتاب فرخ، جسٹس غوث علی شاہ، سنیٹر صاحبان مشاہد حسین اور راجہ ظفرالحق اپنے اپنے شعبہ میں اہم ترین ذمہ داریوں کی حامل خواتین محترمہ رمیزہ مجید نظامی (نوائے وقت میڈیا ہاﺅس کی سربراہ) محترمہ مہناز رفیع،سابق رکن اسمبلی نعیم حسن چٹھہ، میاں فاروق الطاف اور سیکرٹری جنرل شاہد رشید سمیت متعدد کھرے، مخلص اور ملک و قوم کیلئے بے لوث دامے درمے قدمے سخنے خدمات انجام دینے والے پاکستانیوں کا دل دکھانے والی بات ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ا یسا اعتراض کرنےوالے بھی انہی کی طرح کے بابے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ”بابے“ کا لفظ اعتماد، احترام اوردیانتداری کی علامت ہے تو تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اورنظریہ پاکستان ٹرسٹ کے قابل احترام بابوں کاوجود غنیمت سمجھ کر ان کی راہنمائی میں جوانوں کی ٹیم سے کام لینے کاسلسلہ جاری رہنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن