گز شتہ مضمون میںچند اہم ترین معاشی رجحانات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا جو باعث تشویش ہیں۔ ان رجحانات میں مزید خرابی کے آثار سامنے آرہے ہیں۔ کل اسٹیٹ بینک نے چھ ماہ کی بیرونی ادائیگیوں کی تفصیل شائع کی ہے۔ یہ تفصیل پالیسی سازوں کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ ان چھ ماہ میں ،گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ، برامدات تقریباً ساکت رہی ہیں جبکہ درامدات میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یوں تجارت کا خسارہ پانچ فیصد بڑھ گیا ہے۔ جب ہم اس سے آگے مجموعی ادائیگیوں کا کھاتا ، جسے کرنٹ اکاؤنٹ کہا جاتا ہے، دیکھتے ہیں تو یہاں بھی کوئی پائیدار بہتری نظر نہیں آرہی۔ پچھلے سال کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ پہلے چھ مہینوں میں 8353 ملین ڈالر تھا جو اس سال کم ہو کر 7983 میلین ڈالر رہ گیا۔ یہ صرف 370 ملین ڈالر کی کمی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بہتری اس وجہ سے آئی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیطرف سے بھیجی جانیوالی ترسیلات میں قابل قدر اضافہ ہے۔ ان ترسیلات میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے بمقابلہ گزشتہ چھ مہینوں کے۔ اگر یہ اضافی ترسیلات کو منہا کردیا جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اس سال بڑھ گیا ہے۔ یہ اضافہ اس تبدیلی کا ثمر بھی ہوسکتا ہے جو روپے کی قدر میں آئی ہے اور خود وزیر اعظم کی اپیلوں کا نتیجہ بھی۔ لیکں تشویش کی بات یہ ہے کہ روپے کی قدر میں اسقد ر گراوٹ کے باوجود نہ درمدات میں کمی ہوئی ہے نہ برامدات میں اضافہ۔ علاوہ ازیں زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔دوسری جانب صنعتی پیداوار سے متعلق اعداد و شمار جولائی تا نومبر بھی سامنے آگئے ہیں۔ ان پانچ مہینوں میں پیداوار میں ایک فیصد کمی ہوئی بمقابلہ گذشتہ سال کے اس عرصے میں جب پیداوار میں قریباً آٹھ فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ تمام اہم شعبوں میں منفی نمو ریکارڈ کیگئی۔ خصوصاً ٹیکسٹائل، فوڈ ،مشروبات اور تمباکو، پیڑولیم مصنوعات، فارماسوٹیکل، آئرن اور اسٹیل وغیرہ میں منفی اور گاڑیوں کی صنعت میں صفر نمو تھی۔ کچھ مثبت اضافہ فرٹیلائزر ، چمڑے اور کیمکلز کی صنعتوں میں دیکھا گیا ہے۔ یہ کارکردگی معیشت میں سست روی کے رجحان کی نشاندہی کررہی ہے اور ملک میں معاشی افق پر آنے والے دن بھاری ہونگے۔زراعت سے متعلق معلومات نسبتاً فصلوں کی کاشت کے اختتام پر موصول ہوتی ہیں۔ خریف کی تین بڑی فصلیں کپاس، مونجی اور گنا ہوتی ہیں۔ کپاس کی پیداوار کم نظر آرہی ہے کیونکہ15 جنوری تک دس اعشاریہ پانچ ملین گانٹھیں جنری میں پہنچی تھیں، جبکہ یہ تعداد گذشتہ سال گیارہ اعشاریہ تین ملین تھی۔ یوں کپاس کی پیداوار میں آٹھ فیصد کمی واقع ریکارڈ ہوگئی ہے۔ گنے اور چاول کی فصلیں، دوسری جانب، اچھی ہوتی نظر آرہی ہیں اور دونوں میں اضافے کا امکان ہے۔ پانی کی فراہمی اس سال ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اور ربیع کی فصلوں (خصوصاً گندم) میںیہ کمی زیادہ محسوس کی جاسکتی ہے۔ گو اس وقت زرعی شعبے میں شرح نمو سے متعلق کو پیش گوئی نہیں کیجاسکتی لیکن اس کی کارکردگی یقیناً ہدف سے نیچے ہوگی کیونکہ خریف کی فصلوں میں کپاس کی فصل کا وزن مجموعی کارکردگی میں زیادہ ہوتا ہے اور وہ خراب کارکردگی کی حامل رہی ہے۔ ربیع کی کارکردگی اور خصوصاً گندم کی ، زرعی شعبے میں نمو کا آخری فیصلہ کریگی۔ ہماری نظر میں معیشت کی اس زبوں حال کیفیت میں اصل کردار ہماری مالیاتی (fiscal) پالیسی کا ہے۔ جیسا ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں، جب تک سرکاری آمدنی اور اخراجات۔ میں تفاوت ہمارے قابو میں نہیں آئیگا اس وقت تک ملکی معیشت ہمارے قابو سے باہر رہیگی۔ پہلے چھ ماہ میں ٹیکسوں کی آمدنی میں بمشکل دو سے تین فیصد اضافہ ہوا جبکہ ہدف تیرہ سے چودہ فیصد کا تھا۔ غیر ٹیکس آمدنی کا تو برا حال ہے کیونکہ اس میں سب سے بڑے ٹیکس پیٹرولیم سے متعلق تھے اور وہاں حکومت نے یا تو قیمتوں کو کم رکھنے کیلئے شرح کو کم رکھا ہے جس سے آمدنی کم ہوئی ہے یا پھر گیس سیس کی آمدنی برسوں سے قانونی جنگ میں الجھی ہوئی ہے اور اس سے کسی خاطر خواہ وصولی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
دوسری جانب اخراجات بے قابو ہیں۔ حکومت کے پاس اختیاری خرچ صرف ترقیاتی بجٹ کا ہے۔ یہاں کٹوتیوں کا اعلان ہوا ہے لیکن یہ ناکافی ہیں، سب سے بڑا اضافی خرچ قرضو ں پر سود کی ادائیگی ہے۔ اس حکومت کے دور میں پالیسی ریٹ یعنی مرکزی بنک کی شرح سود میں ساڑھے تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم صرف اس سال کی ابتدا میں جو قرضہ واجب الادا تھا اس کو سامنے رکھیں تو اس شرح میں اضافے کا بوجھ آٹھ سو ارب روپے سے زیادہ کا ہے اور اگر سال میں لئے جانے والے اضافی قرضوں کو بھی شامل کرلیں تو یہ بوجھ نو سو ارب روپے سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ پہلے پانچ مہینوں میں بجٹ کے خسارے کا اندازہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔ اس رفتار سے یہ خسارہ اس وقت دو ہزار چار سو ارب روپے یا مجموعی آمدنی کا چھ فیصد نظر آرہا ہے جبکہ اس کا ہدف پانچ اعشاریہ ایک فیصد رکھا گیا تھا۔ لیکن اس وقت آثار بتا رہے ہیں کہ آگے چل کر یہ خسارہ سات فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
اس پس منظر میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک نیا منی بجٹ (Mini-budget)کا اعلان کرنے جارہی ہے۔ منی بجٹ کی اصطلاح عموماً ایسے موقعوں پر استعمال ہوتی ہے جبکہ ٹیکسوں کی آمدنی میں کمی کو پورا کرنے کیلئے مالی سال کے دوران اضافی ٹیکسوں کے لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن حکومتی اہلکار جو پہلے تو اس بات سے انکار کررہے تھے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آرہا، اب کہہ رہے ہیں کہ اس میں کسی قسم کا کوئی اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز نہیں ہے، بلکہ یہ ترغیبات اور کاروباری سہولتیں فراہم کرنے کا بجٹ ہے۔ تازہ ترین بیان وزیر خزانہ کا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس میں پانچ سالہ منصوبہ بندی کے اہداف بیان کیے جائینگے۔ یہ سب غیر معروف استعمالات ہیں۔ لہذا اس وقت اس بجٹ پر کوئی معنی خیز تبصرہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو ٹیکس آمدنی میں کمی کا سامنا ہے اور اس مقصد کیلئے نئے ٹیکس لگانے پڑینگے۔ گیس اور بجلی کی قیمتیں پوری طرح سے چارج نہیں کیگئی ہیں اور اس سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوگا۔ لہذا اگر منی بجٹ میں وہ اقدامات دیکھنے کو نہیں ملیں گے جو معاشی استحکام کا ذریعہ بنیں تو موجودہ بے یقینی نہ صرف جاری رہیگی بلکہ اس میں اضافہ ہوگا۔ اس سال مجموعی قومی پیداوار میں زبردست کمی واقع ہوگی جس کی پیشنگوئی تمام ماہرین اور ورلڈ بنک وغیرہ کر رہے ہیں۔ یہ کمی بیروزگاری میں اضافہ کریگی اور نئی آسامیا ں پیدا نہیں ہونگی۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کا ایک بڑا وعدہ ا یک کروڑ اسامیاں پیدا کرنا ہے۔دوست ممالک کی مدد یقیناً مددگار ہے لیکن اسکی نوعیت عارضی ہے جو اصل بیماری کا علاج نہیں کرتی گو اس سے وقتی افاقہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ مشکل فیصلوں کا ملتوی کرنا ہے۔ حکومت ایک عجیب مخمصے میں گھری ہوئی ہے۔ اس کو وراثت میں ایک مشکل معیشت ملی تھی اور اس کو چاہیے تھا کہ قوم کو اس سے آگاہ کرکے اسکے تقاضوں کیمطابق اصلاح احوال کا کام شروع کرتی، جو یقیناً سخت اقدامات پر مشتمل ہوتا۔ لیکن اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ حکومت نے اس بات کا بار بار اعلان کیا ہے کہ اسے مشکل معیشت ملی ہے لیکن وہ اس کی ضرورت کے مطابق سخت فیصلے کرنے سے کترا رہی ہے۔اسے خوف ہے کہ سخت فیصلوں کے برے سیاسی نتائج نکلیں گے جن کا دفاع ممکن نہیں ہوگا۔ اگراس دوران کچھ درست فیصلے بھی کیے ہیں تو وہ قسطوں میں کیے گئے جن کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوسکے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی اس لیے قبول نہیں ہے کہ وہ سخت اقدامات کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بغیر آئی ایم ایف کے پروگرام کے معاشی استحکام ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ جسقدر تاخیر سے یہ پروگرام شروع کیا جائیگا اسقدر اس میں سختی ہوتی جائیگی۔ لہذا ہم پھر حکومت کو مشوورہ دینگے کہ وہ اب بلا تاخیر پروگرام میں جانے کا اعلان کرے اور مختصر مذاکرات کے بعد اس پر عملدرآمد کا اہتمام کرے۔ (ختم شد)