اپوزیشن ’’گرینڈ الائنس‘‘ کا قیام

Jan 20, 2019

محمد اسلم خان....چوپال

قومی اسمبلی کا ساتواں سیشن 14 جنوری 2019 کو شروع ہوچکا ہے جبکہ سینیٹ کا اجلاس 21 جنوری 2019 کو طلب کر لیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا سیشن 25 جنوری 2019 تک جاری رہے گا۔ سینیٹ کا اجلاس ماہ رواں کے اواخر تک جاری رہنے کا امکان ہے گذشتہ ہفتے کے دوران پارلیمنٹ ہائوس میں غیر معمولی واقعہ یہ ہوا کہ اپوزیشن جماعتوں کے ’’گرینڈ الائنس‘‘ کا قیام عمل میں آگیا یہ ایک دو دن کی کوششوں یا رابطوں کے نتیجے میں قائم نہیں ہوا اسکے پیچھے مولانا فضل الرحمنٰ کی 5ماہ کی کوششیں شامل ہیں ۔گذشتہ ہفتے پارلیمنٹ ہائوس میں غیر معمولی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پارلیمنٹ میں آمد بلاوجہ نہیں تھی۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے میاں شہباز شریف سے اپنے فاصلے کم کرنے کا فیصلہ حکومت کی طرف سے بڑھتے ہوئے دبائو کے پیش نظر کیا ہے۔
پاکستان کی سیاست بھی ’’انوکھی ‘‘ہے۔ جب آصف علی زرداری ’’گرم پانیوں‘‘ میں ہوں تو میاں نواز شریف ان سے فاصلہ قائم رکھتے ہیں، یہی صورتحال آصف علی زرداری کی بھی رہی ہے جب نواز شریف ’’گرم پانیوں ‘‘ میں رہے تو آصف علی زرداری اسٹبلشمنٹ سے راہ و رسم بڑھاتے رہے۔ جب آصف علی زرداری کی ’’طنابیں‘‘ کسی جانے لگیں اور انھیں ’’ جیل یاترا‘‘ کے پیغامات موصول ہونے لگے تو انھوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے قریب تر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس بنانے کے ایجنڈے کے ساتھ آئے ۔ آصف زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان پارلیمنٹ میں مختصر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں لیکن اب کی بار میاں شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں پوری اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھ گئی اس کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمنٰ کو جاتا ہے اجلاس میں مولانا فضل الرحمنٰ کی نمائندگی ان کے صاحبزادے مولانا اسعد محمود نے کی ۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر حکومتی دبائو کو نظر انداز کر کے میاں شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد قائم ہو جانا،’’ سیاسی معجزے ‘‘سے کم نہیں۔ اگرچہ حکومت اپوزیشن اتحاد کو’’ کرپشن بچائو اتحاد‘‘ کا نام دے رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اسے ’’این آر او‘‘ کے حصول کی ایک کوشش قرار دیا ہے لیکن قرائن یہ بتاتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے قیام کے بعد حکومت دبائو میں آ گئی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل بی این پی مینگل نے بھی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کر کے حکومت کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اگر انکے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ اپوزیشن کے ساتھ مل جائینگے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے اگر حکومت خود گری تو معلوم نہیں بچا سکیں گے یا نہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیلئے 6نکات پر عملدرآمد کی شرط رکھی تھی، بدقسمتی سے حکومت ہمارے مطالبات پر ایک فیصد بھی عملدرآمد نہیں کیا، حکومت کے رویے میں چار ماہ گزر جانے کے باوجود کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ اسی طرح پشتوں تحفظ موومنٹ کے دو سرکردہ ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کیلئے اس حد تک مضطرب دکھائی دیئے کہ انھوں نے اپوزیشن کے اجلاس میں نہ بلائے جانے کا گلہ کیا۔ اپوزیشن کے اتحاد نے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ یہ اتحاد حکومت گرانے کیلئے نہیں ہے بلکہ عوام کے مسائل حل کرانے کیلئے پارلیمنٹ میں موثر طور پر بات کرنے کیلئے ہے۔
آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے باہم ’’شیر و شکر‘‘ ہونے سے دونوں جماعتوں کے درمیان پائی جانیوالی ’’تلخی‘‘ ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ دونوں کے درمیان اس حد تک قربتیں بڑھ گئی ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے آصف علی زرداری کی تقریر سننے کیلئے اپنی فزیو تھراپی موخر کرا دی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنی تقریر کے بعد اپنے گھر جانا تھا،شہباز شریف کی فزیو تھراپی کیلئے فزیوتھراپسٹ ان کا انتظار کر رہے تھے لیکن شہباز شریف آصف علی زرداری کی تقریر سننے کیلئے بیٹھ گئے اور تقریر سننے کے بعد ایوان سے باہر گئے ۔ اسی طرح جب آصف زرداری ایوان میں آئے تو میاں شہباز شریف نے ڈیسک بجا کر انھیں خوش آمدید کہا ۔ میاں شہباز شریف اپنی نشست اٹھ کر آصف علی زرداری کے پاس گئے تو دونوں کے درمیان ’’پرجوش مصافحہ اور راز و نیاز ‘‘ کی باتیں ہوئیں یہ صورت حال حکومت کے لئے پریشان کن ہے ۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق پیغام رساں کا کردار ادا کر رہے ہیں، وہ پچھلے کئی دنوں سے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کے قائدین سے اپنی قیادت تک پیغامات پہنچاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں آصف علی زرداری کچھ بدلے بدلے نظر آئے ہیں ۔ انھوں نے جہاں تلخ نوائی کی وہاں انھوں نے حکومت کو یہ باور کرایا کہ وہ نیب سے نہیں ڈرتے، انھوں نے بڑے بڑے نیب دیکھے ہیں، آصف علی زرداری چیئرمین نیب پر بھی برسے ہیں اور کہا ہے کہ چیئرمین نیب کے سامنے ہم کیوں جائیں انہیں خود پارلیمنٹ میں پیش ہونا چاہیے۔ ہم اس حکومت کو نہیں گرائیں گے لیکن اسے تو خود ہی گرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ’’مانگے تانگے کی حکومت ہے نہ جانے یہ حکومت کتنے دن چلے ‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’میری عمر64سال ہے،70سال جیوں یا80یہ میرے مالک کو پتہ ہے،جب تک میں زندہ ہوں پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں۔یہ جو لوگ نئے نئے حکومت میں آئے ہیں انکوبھی سکھانا چاہتا ہوں‘‘۔ اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں منعقدہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں میاں شہباز شریف ، آصف زرداری، بلاول بھٹو، نوید قمر، مولانا اسعد الرحمان اور امیر حیدر خان ہوتی، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور رانا تنویر حسین نے شرکت کی ۔ میاں شہباز شریف نے آصف علی زرداری کے اعزاز میں ظہرانے کا بھی اہتمام کر رکھا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی جس میں موجودہ سیاسی صورتحال، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے امور، بلوچستان میں حکومت سمیت دیگر معاملات پر بات چیت کی گئی۔ اجلاس کے شرکاء نے حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں آصف علی زرداری نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع اور منی بجٹ کی مخالفت پر زور دیا تاہم اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اس ایشو پر متفقہ پالیسی اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے اس مقصد کیلئے 10رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے ۔ حکومت نے شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے جو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم سمیت دیگر پارلیمانی امور پر قائد حزب اختلاف سے بات کرنا چاہتی ہے۔ جب حکومت کا پیغام اپوزیشن کو پہنچایا گیا تو انھوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ وہ حکومتی وفد سے بات چیت نہیں کرینگے بلکہ اپوزیشن کی کمیٹی حکومتی کمیٹی سے بات چیت کریگی تاہم اگر وزیراعظم عمران خان قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف سے براہ راست ملاقات کیلئے تیار ہوں تو اپوزیشن لیڈر بھی ان سے بات چیت کرنے کیلئے تیار ہونگے۔ اپوزیشن جماعتوں کے غیر معمولی اجلاس پر وزیر اعظم عمران خان اپنا ردعمل ظاہر کر دیا ہے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ’’ اپوزیشن کی جانب سے اکٹھا ہونے کا مقصد این آر او مانگنے کی کوشش ہے‘‘۔ جس پر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ’’ ہم این آر او لینا چاہتے ہیں اور نہ ہی حکومت دینے کی پوزیشن میں ہے۔ یہی موقف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن گرینڈ الائنس ملکی سیاست میں کس حد تک موثر کر دار ادا کرتا ہے اس کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔

مزیدخبریں