ایسے سرکاری افسران جو اسلام آباد سے باہر تعینات تھے انکی طرف سے اکثر یہ شکایت سامنے آتی کہ ان کا بہت سا وقت اسلام آباد آنے جانے میں صرف ہوجاتا ہے، یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس کی نظیر جسٹس (ر) افتخار چودھری سے پہلے کسی اور چیف جسٹس کے دورمیں کم ہی دیکھنے میں آتی تھی۔اس صورتحال کا نامناسب ترین پہلو یہ تھا کہ جسٹس افتخار چودھری اپنے ریمارکس میڈیا کی موجودگی میں دینے کا اہتمام کرتے تاکہ وہ عوام میں شہرت حاصل کرسکیں۔ درحقیقت وہ اہم مقدمات کی سماعت اس وقت تک کیلئے مؤخر رکھتے جب تک سپریم کورٹ آنیوالے اخباری رپورٹرز اس کیس کی سماعت کی کوریج کو یقینی نہ بنا لیتے۔اس طرح ’’میڈیا ٹرائل‘‘ انکے دورمیں مستقل طور پر ایک شکایت کی صورت میں سامنے آتا رہا۔
اسی طرح جسٹس ثاقب نثار بھی ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خبروں کی سرخیوں میں رہتے۔ شاید یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ جسٹس ثاقب نثار کو ملنے والی کوریج پاکستان کے وزیراعظم کو ملنے والی کوریج سے بھی زیادہ تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے انتظامیہ اور پارلیمینٹ کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔ایسے لگتا تھا کہ اب حکومت مہمند ڈیم کے افتتاح کی تاریخ متعین کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتی یہ صورتحال کسی بھی آئینی جمہوریت کی رو کے منافی ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری عام سائلین کے مسائل کے حل کیلئے بامقصد عدالتی اصلاحات کرنے میں ناکام رہے۔ انکے اپنے بیٹے کیخلاف بھی الزامات سامنے آئے اس ساری صورت حال کی وجہ سے ان کی اپنی ساکھ تو متاثر ہوئی ہی تھی لیکن بدقسمتی سے اس سے عدلیہ کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچی۔
دوسری طرف اس صورتحال کا موازنہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سیاسی ،معاشی اور آئینی معاملات میں حد سے بڑھتی ہوئی فعالیت سے کیا جائے تو صورتحال کو سمجھنے کیلئے ان کا اپنا اعترافی بیان ہی کافی ہے۔ جس میں انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ مقدمات کے بروقت فیصلوں کو یقینی بنانے کے حوالے سے ’’اپنے ہی گھر کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ‘‘کاش وہ اس مسئلے کے حل کیلئے بھی اتنے ہی متحرک ہوتے جتنا کہ وہ سیاسی، معاشی اور دیگر امور کی طرف متحرک تھے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں ایک ایسا کیس بھی سامنے آیا جس میں چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک ایسے مسافر کے سامان سے ملنے والی شراب کی ایک بوتل پر بھی ازخود نوٹس لے لیا گیا جس کو صدرپرویزمشرف کا حامی خیال کیا جاتا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں صوابدیدی اختیارات کے لگاتار استعمال کیخلاف پیدا ہونیوالے شدید منفی ردعمل نے انکے بعد آنے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ، چیف جسٹس ناصرالملک اور چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کو مجبور کیا کہ وہ صورتحال کی درستگی کیلئے ازخود نوٹس کے استعمال میں احتیاط کریں اور اپنے آپ کو میڈیا کی روشنیوں سے ذرا فاصلے پر رکھیں۔
معاشی اثرات:۔
اب ذرا ایک نظرحالیہ دنوں میں معاشی اور مالی معاملات میں ہونیوالی عدالتی مداخلت پر ڈال لی جائے مثال کے طور پراگرہم موبائل فون کارڈز پرٹیکس ہٹانے جیسے ’’پاپولر‘‘ اقدام کو ہی لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس اقدام کا ایک نتیجہ حکومتی ریونیو میں کمی کی صورت میں سامنے آیاجس کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑا۔ عدالتی حکم پر دی جانے والی ٹیکس کی اس چھوٹ نے آئی ایم ایف اورقرضہ دینے والے دیگر اداروں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی حکومت کی پوزیشن کو کمزور کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے وزیراعظم معیشت کی بحالی کیلئے ملک میں کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے اور سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، اقتصادی زمینی حقائق اور ریگولیٹری میکنیزم کے منافی اس طرح کے عدالتی اقدامات سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے اور انکا اعتماد مجروح ہوا۔ یہ بات بھی کافی مشہور ہوئی کہ ایک پاکستانی نژاد سرمایہ کار چیف جسٹس ثاقب نثارکے ساتھ ہونیوالے ایک نامناسب ٹاکرے کے بعد پاکستان ہی چھوڑ کر باہر چلا گیا۔ اس صورتحال نے بیوروکریسی کو بھی منجمد سا کرکے رکھ دیا ہے۔عام طورپر سرکاری افسر آجکل جوڈیشل ایکٹوازم کے خوف سے کسی بڑے منصوبے کی فائل پر دستخط کرنے سے گریزاں ہیں ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے بار بار معاشی پالیسی سازی میں مداخلت سے ملک کوجن خطرات کا سامنا رہتا ہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ماضی کے معاشی بحران کا باعث بننے والے پاکستان اسٹیل مل ،ریکوڈک اور رینٹل پاور پراجیکٹ کے عدالتی فیصلوں سے بھی سبق نہیں سیکھا گیا۔ پاکستان کے ممتاز قانون دان اور سابق وزیرقانون جناب خالدانور نے پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کیخلاف 2006ء میں دیئے گئے عدالتی فیصلے کو ایک بُرا فیصلہ (A Bad Verdict) قرار دیا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب میں بحیثیت وزیر خارجہ روس کی حکومت سے پاکستان سٹیل مل کی پیداواری صلاحیت تین گنا بڑھانے کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہا تھا اور میری روس کے وزیرخارجہ سرجی لیورو(Sergey Lavrov) کے ساتھ مفید بات چیت چل رہی تھی اور روسی حکومت سٹیل مل کی توسیع و بحالی میں گہری دلچسپی دکھا رہی تھی، عدالت کے پاکستان اسٹیل مل کے حوالے سے دیئے گئے فیصلے نے ہماری ان ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ پاکستان اسٹیل مل کا خسارہ 200 ارب روپے تک جا پہنچا اور اس میں مسلسل مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح رینٹل پاور پلانٹس (RPP) اور ریکوڈک کیسز میں بھی عدالتی فیصلوں کو بین الاقوامی ثالثی اداروں کی طرف سے نظرانداز کردیا گیا۔رینٹل پاور پلانٹس (RPP) کے مقدمے میں بین الاقوامی ثالثی کے ادارے کی طرف سے پاکستان پر 700 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا اور ریکوڈک کیس میں بھی پاکستان کو ہونے والے جرمانے کی رقم بھی غیرمعمولی طور پر بہت بھاری بتائی جارہی ہے۔ اسی طرح کے کئی مقدمات میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری یہ کہتے پائے گئے کہ ’’اگر آسمان گرتا ہے تو گر جائے، انصاف ضرور کیا جائیگا۔‘‘ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس رومن قانونی مقولے کا مآخذ بھی مشتبہ ہے۔ اس کو کسی کلاسیکل سورس سے اخذنہیں کیا گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدقسمتی سے آسمان گر ہی تو گیا ہے۔ لیکن یہ آسمان بے چاری غریب پاکستانی ریاست پر گرا جس کو بھاری مالی نقصان ہوا اور اسے ممکنہ طور پر ہوشربا ہرجانوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
ججوں کے طرزعمل اور صفات کے بارے میں اسلامی اور مغربی نظریات :
حضرت علی ؓ نے ایک مرتبہ اپنے ایک گورنر کولکھا تھا :
’’ایسے شخص کو جج کے عہدے پرلگانا جسے ڈرایا نہ جاسکے، جو خودغرض اور لالچی نہ ہو، وہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو تمام حقائق جانے بغیر فیصلے نہ کرے اور وہ معاملے کے تمام پہلوئوں کا بغورجائزہ لے کر واضح طور پر فیصلہ سنائے، جو وکلاء (موید/الدافع)کے دلائل کے سامنے ناگواری اور بے چینی کا اظہار نہ کرے۔ یہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو نہایت احتیاط کے ساتھ حقائق تک پہنچنے کیلئے نئے انکشافات کا جائزہ لے، جو اپنے فیصلوں میں غیرجانبدار رہے ، جس کو خوشامد کرکے بہکایا نہ جا سکے اور جو عہدہ ملنے پر خوشی سے باغ باغ نہ ہوجائے۔‘‘
اسی طرح مغرب میں اٹھارہویں صدی میں روشن خیالی کے دور (Age of Enlightenment)میں مغربی لیگل تھیوری میں جج کے مزاج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے غصے سے پاک ہونا چاہیے کیونکہ غصہ سمجھ اور شعور پر پردہ ڈال دیتا ہے اور فیصلہ سازی پر منفی طورپر اثرانداز ہوتا ہے۔ انگلستان کے عظیم سیاسی اور قانونی فلسفی تھوماس ہوبس (Thomas Hobbes) نے لکھا ہے کہ ججوں کو ہر طرح کے غصے اور نفرت سے آزاد ہونا چاہیے۔ اسی طرح ممتاز امریکی قانونی سکالر اور جج رچرڈ اے پوسنر (Richard A.Posner) کا اصرار ہے کہ غصے والے جج سے بچ کے رہو۔ اس لیے ججوں کیلئے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور وکلاء کے ساتھ اچھے رویئے کا مظاہرہ کریںتاکہ یہ بات نظر آئے کہ وہ اپنے فیصلے قانونی بنیادوں پر غیرجانبداری سے کررہے ہیں ناکہ خواہشات اور جذبات سے مغلوب ہوکر ۔
اوپر بیان کیے گئے حقائق کی روشنی میں خاص طور پر حضرت علی ؓ کے دانش مندانہ خط کی روشنی میں مجھے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے پاکستان کے ممتاز وکلاء کو یہ کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ آپ چوروں کی نمائندگی کیوں کررہے ہیں۔ (کیا کسی بھی شخص کو جرم ثابت ہونے سے پہلے یا فیصلے کے اعلان تک قانون کی نظر میں معصوم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ )یہ وکلاء کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے مؤکل کا ہرممکن حد تک قانونی باریک بینی کے ساتھ دفاع کریں کیونکہ فیصلہ سناناتو بہرحال جج ہی کا کام ہے اور یہ بات ایک واضح اصول ہے ۔ جس کی وضاحت کیلئے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ مجھے صحافیوں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ کسی شک و شبہ سے پاک دیانت دارانہ کیرئیرکے حامل ایک انتہائی قابل احترام بزرگ صحافی حسین نقی کو عدالت میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے تضحیک آمیز انداز میں ’’تم ‘‘کہہ کر بلایا گیا۔ جناب حسین نقی نے اس طرزِتکلم پربجا طور پر اعتراض کیا۔ کئی آمروں کوللکارنے والے ایسے صحافی کے ساتھ روا رکھے گئے اس سلوک پر صحافی برداری ہی کی طرح میں خود بھی ہکابکا رہ گیا۔ چیف جسٹس صاحب کے مزاج میں اس وقت ہی نرمی آئی جب صحافی برادری نے متفقہ طور پر جناب حسین نقی کیخلاف ہونیوالے اس نامناسب سلوک پر آواز اٹھائی۔ (جاری)
نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے توقعات
Jan 20, 2019