خورشید قصوری کا نئے چیف جسٹس کے نام کھلا خط

ملک کے سابق وزیر خارجہ بیرسٹر خورشید محمود قصوری نے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا ہے۔ اور اس کی کاپی میرے استفادے کے لئے مجھے بھجوائی ہے۔ قصوری صاحب نے خط کے شروع میں اپنا پروفائل بیان کیا ہے کہ ان کی د ونسلیں قانون کے پیشے سے وابستہ رہی ہیں ۔ ان کے دادا عبدا لقادر قصوری اور والد محمود علی قصوری نے اس پیشے میں نام کمایا، والد صاحب انہیں بھی وکیل بنانا چاہتے تھے جس کے لئے انہیں کیمبرج بھیجا گیا۔جب وہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے طور پر فرائض ادا کررہے تھے تو مشرف نے ایمر جنسی پلس لگائی جس پر انہوںنے اپنے عہدے سے استعفی بھیج دیا،قصوری صاحب لکھتے ہیں کہ انہیں چیف جسٹس افتخار چودھری کے طرز عمل سے اختلاف تھا اوراس کی ساری تفصیل انہوںنے اپنی خود نوشت میں قلم بند کی ہے۔
خورشید محمودقصوری یہ خط لکھ کر اس بحث میں شامل ہو گئے ہیں جو چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی ریٹائر منٹ کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ سابق چیف جسٹس ہر طرف سے تیر اندازوں کے نرغے میں ہیں۔ اس مسئلے پر میری اپنی ایک رائے ہے اورا سکا اظہار میں علیحدہ کالم میںکروں گا ۔
بہر حال قصوری صاحب کے خیالات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتاا ور اگرا س کی روشنی میں نظام انصاف کی اعلی ترین سطح پر ضروری اصلاحات ہو جائیں تو ریاست کا یہ ستون اپنا متوازن اور مثبت کردارا دا کر سکتا ہے اور عوام میں ہمیشہ غیر متنازعہ بھی رہ سکتا ہے۔۔ قصوری صاحب کے خط سے اس درد مندی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس خط کی ایک ایک سطر سے ان کا خلوص ٹپکتا ہے اور اس کے ایک لفظ سے پتہ چلتاہے کہ قصوری صاحب قانونی معاملات پر کس قدر گہری اور صائب نظر رکھتے ہیں اور ان کا مشاہدہ کس قدر عمیق اور وسیع ہے اور ان کے تجربات کا دائرہ کس حد تک پھیلا ہوا ہے۔
ظاہر ہے اس خط کا مطلب ہی یہ ہے کہ انہیں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے کنڈکٹ سے اختلاف ہے اور اس کے لئے انہوںنے آئینی اور قانونی حوالے دیئے ہیں اور تاریخ کے صفحات قاری کے سامنے کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ،بھارت اور پاکستان کی عدالتی تاریخ کو کھنگال کر انہوںنے ایسی مثالیں پیش کی ہیں جنہیں کسی منطق کی رو سے رد نہیں کیا جا سکتا،اس خط کا وہ حصہ تو سونے کے حروف سے لکھنے کے قابل ہے جس میں انہوںنے حضرت علی ؓ کے وہ اصول درج کئے ہیں جن کی روشنی میں کسی جج کا تقرر کیا جانا چاہئے۔قصوری صاحب کے طبقے کو ہم عام لوگ مغرب زدہ خیال کرتے ہیں اور بزعم خویش اسلام کے ہم خود ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں مگر خورشید قصوری کے اس حوالے نے میرا خلل دماغی رفع کردیا ہے۔ اور میں اپنے طبقے کے اہل قلم اور دانش وروں کو نصیحت کرتا ہوں کی وہ اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکیدار نہ سمجھیں اور اعلی تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام سے نابلد بھی خیال نہ کریں۔میں اپنی کج روی پر قصوری صاحب سے معذرت بھی چاہتا ہوں۔
سابق چیف جسٹس نے جہاں جہاں غلطیاں کیں ،قصوری صاحب نے ان سب کا ذکر کیا ہے اور ان سے بھی پہلے چیف جسٹس افتخار چودھری نے جس طرز عمل کاا ظہار کر کے انتظامیہ کو مفلوج کیاا ور اعلی افسروں کی توہین کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس پر سخت ناپسندیدگی کااظہار کیا ہے۔ اب یہ ساری باتیں کھل کر کی جارہی ہیں ۔ ٹاک شوز میں ہر کوئی تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے ،مگر خورشید قصوری نے اسٹیل مل، ریکو ڈک اور بعض دیگر مقدمات کے فیصلوں سے ثابت کیا ہے کہ اعلی ترین ججوں نے پاکستان کی معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
سوو موٹو اقدامات کو بھی قصوری صاحب نے دلائل کے ساتھ چیلنج کیا ہے اور نئے چیف جسٹس کو تجویز دی ہے کہ اس اختیار کی صراحت کے ساتھ تشریح اورو ضاحت ہونی چاہئے اور اسے ایک شخص کاا ختیار نہ رہنے دیا جائے،بلکہ اسے سینیئر ججوں کے ساتھ مشروط کر دیا جائے اور جہاں تک ہو سکے سوو موٹو اقدام سے گریز کیا جائے کیونکہ قصوری صاحب کی رائے ہے کہ یہ اقدامات صرف میڈیا میںشہرت پانے ، اخبارات میں شہہ سرخیاںلگوانے اور سستی مقبولیت لینے کا باعث بنے اور ان میں الجھ کر سابق چیف جسٹس اپنے اصل فرائض سے دور چلے گئے اور عدالتوں کے سامنے ہزاروںمقدمات کا ڈھیر اسی طرح پڑا ہے۔
توہین عدالت کی شق پر بھی قصوری صاحب کو یہ اعتراض ہے کہ اس کا بے تحاشااستعمال جگ ہنسائی کا باعث بنا۔بسااوقات تو اس سے انتقامی کارروائی کی بو آتی رہی ۔قصوری صاحب نے جج کو تحمل مزاج اور صابر رہنے کا مشورہ دیا ہے ، یہ وہ اصول ہے جو حضرت علی ؓ نے وضع کیا تھا۔ قصوری صاحب نے قائد اعظم اور اپنے والد محمو دعلی قصوری کے دو کیسوں کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوںنے عام معنوں میں عدالت میں کھڑے ہو کر توہین عدالت کا ارتکاب کیا اور جج صاحبان انہیںکوئی بھی سزا دے سکتے تھے مگر نہ قائد اعظم کے ساتھ کسی جج نے چھیڑ چھاڑ کی اور نہ محمود علی قصوری کو ٹوکنے کی جرات جج صاحبان کو ہو سکی۔
کیا ڈیم بنانا کسی جج کا کام ہے۔ قصوری صاحب نے اس پر بھی اپنی رائے دی ہے اور نئے چیف جسٹس کی توصیف کی ہے کہ وہ ڈیم توبنائیں گے مگر نظام انصاف کی سست روی کے خلاف۔نئے چیف جسٹس نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ سو موٹو اقدام کسی ناگزیر صورت حال میں لیں گے ۔
قصوری صاحب ایک دانش ور ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ اورتجربے کی دولت سے مالا مال۔ دنیوی دولت تو بے اندازہ ہوگی۔جس طرح انہوںنے اپنا پروفائل بیان کیا ہے۔ اسی طرح میں بھی قصوری صاحب کو اپنا تعارف ضرور کرانا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق بھی قصور سے ہے۔میرے والد میاں عبدالوہاب اپنے گائوں فتوحی والہ میں تحریک آزادی کے ایک ہیرو صوفی ولی محمد کے میزبان تھے ا ور قصوری خاندان بھی تحریک آزادی کے لئے سرگرم عمل تھا ،ا سلئے خورشید کے اجداد میرے والد صاحب سے اکثر ملنے جاتے تھے۔ اور صوفی ولی محمد کی بیعت میں تھے، خورشید قصوری نے الیکشن میں حصہ لیا تو میرے بڑے بھائی ماسٹر عمر فارق نے اپنی معذوری کے باوجود ان کی الیکشن مہم بستر پر لیٹے لیٹے چلائی اور ا سکی گواہ محترمہ نسرین قصوری صاحبہ ہیں۔ یہ حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ میں خورشید صاحب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ا نہیں اپنے اس کھلے خط میں ضرور احتجاج کرنا چاہئے تھا کہ کسی نجی اسکول کی کیا فیس ہونی چاہیے اور کیا نہیں ہونی چاہئے ، اس سے اعلی عدلیہ کو کیا سرو کار مگر انہوںنے اس ذاتی مسئلے کا ذکر نہیں کیا ، کیوںنہ کیا۔کیا یہ فیصلہ صرف قصوری صاحب کے اسکولوں پر اثر انداز ہوتا ہے ، یا اس نے ہر نجی اسکول کی پرائیویسی میں مداخلت ہوتی ہے۔
چیف جسٹس سے لوگ انصاف ضرور مانگتے ہیں ، انصاف کے لئے اسی کی طرف دیکھتے ہیں مگر نمائشی اقدامات سے تو معاشرے کو انصاف نہیں مل سکتا۔ اور نہ ذاتی جاہ جلال کے مظاہرے سے ظالم کو ظلم سے روکا جا سکتا ہے۔
بیرسٹر خورشید قصوری کے تعلقات میڈیا سے بہت اچھے ہیں۔ ان کا پورا خط انگریزی اور اردو میں چھپ جائے گا ،کاش انہوںنے یہ خط اردو میں لکھا ہوتا تو میں اسے لفظ بہ لفظ اپنے کالم کا حصہ بنا دیتا۔ اب جو کچھ سمجھ آیا ہے، میںنے ا سکا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔
میں اس کالم کو بھی ایک کھلے خط کی شکل میں اپنے خیالات کے اظہار کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہوں اور نئے چیف جسٹس سے اپیل کرتا ہوں کہ ڈیم کے اشتہار فری نشر کروائے گئے۔ ان کی ادائیگی تمام چینلز کو اس فنڈ سے کروائی جائے کیونکہ ڈیم تو اگلی نسلوں کی بھوک یا پیاس مٹانے کے کام آئے گا مگر اس کے اشتہاروں کی رقم کی ادائیگی سے اس وقت میڈیا کے معاشی مسائل بڑی حد تک حل ہو جائیں گے ا ور ہزاروں گھروں کے چولہے روشن ہو جائیں گے۔ ڈیم ایک کاروباری منصوبہ ہے۔ اس کی تعمیر کرنے والے کھربوں کا بل لیں گے کوئی مفت میں تو نہیں بنائے گا، اس کا پانی کاشتکاروں کو بیچا جائے گاا وراس کی بجلی ہر صارف کو بیچی جائے گی تو پھر اس کاروبای ادارے کی اشتہار بازی مفت کیوں۔محترم چیف جسٹس یہ فیصلہ کر کے اپنی اننگز کاآغازکریں اور پورے میڈیا کا بھی دل جیت لیں۔

ای پیپر دی نیشن