ساہیوال/لاہور/کاہنہ (نمائندہ نوائے وقت+نامہ نگار +نمائندہ خصوصی+ ایجنسیاں ) لاہور ساہیوال روڈ پر قادر آباد کے قریب سی ٹی ڈی پولیس کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے میاں‘ بیوی، بیٹی اور ڈرائیور سمیت چار افراد جاں بحق اور دو کمسن بچے گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے جبکہ پانچ سالہ بچی معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ تفصیلات کے مطابق سی ٹی ڈی کو اطلاع ملی تھی دہشت گردوں کا ایک گروہ کار میں ساہیوال کی طرف جا رہا ہے جس پر قادر آباد کے قریب ناکہ لگا کر پولیس کی بھاری نفری کھڑی تھی کہ لاہور کی جانب سے کار میں سوار چونگی امرسدھو لاہور کا خلیل احمد اپنے خاندان کے ہمراہ اپنے بھائی رضوان کے بیٹے کی شادی میں بورے والا جا رہے تھے جب وہ قادر آباد کے قریب پہنچے تو سی ٹی ڈی پولیس نے گولیاں برسا دیں جس کے نتیجہ میں خلیل احمد، اسکی بیوی نبیلہ، بیٹی اریبہ اور ڈرائیور صوفی ذیشان مو قع پر دم توڑ گئے جبکہ مقتول خلیل کا بیٹا عمیر10سالہ اور7سالہ بچی منیبہ گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال داخل کرا دیا گیا ہے جہاں بچے عمیر کی حالت نازک ہے جبکہ 5سالہ بچی ہادیہ معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔ پولیس یوسف والہ نے مو قع پر پہنچ کر تفتیش کی ۔لاہورسے نمائندہ خصوصی کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی نے ساہیوال میں قادر آباد کے نزدیک سی ٹی ڈی کی جانب سے کار سواروں پر فائرنگ اور چار افراد کی ہلاکت کے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے آر پی او ساہیوال اور سی ٹی ڈی پنجاب سے انکوائری رپورٹ طلب کی تھی جس پر سی ٹی ڈی پنجاب نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ آئی جی پنجاب کو پیش کردی ہے۔رپورٹ کے مطابق ساہیوال سی ٹی ڈی ٹیم نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر ساہیوال میںجوائنٹ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشت گرد ہلاک ہوگئے جبکہ انکے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد برآمد کر لیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب ساہیوال سی ٹی ڈی کی ٹیم نے کار اور موٹر سائیکل پر سوار دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش کی جس پر دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی کی ٹیم پر فائرنگ شروع کردی ، سی ٹی ڈی ٹیم نے اپنے تحفظ کیلئے جوابی کاروائی کی جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو چار دہشت گرد جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک پائے گئے جبکہ انکے تین ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق ساہیوال میں ہونے والا آپریشن 16جنوری کو فیصل آباد میں ہونے والے آپریشن کا تسلسل ہے اور سی ٹی ڈی کی ٹیم ریڈ بک میں شامل انتہائی مطلوب دہشت گردوں شاہد جبار اور عبدالرحمان کو ٹریس کر رہی تھی ۔ گزشتہ روز معتبر ذرائع سے یہ اطلاع موصول ہوئی وہ اسلحے اور دھماکہ خیز موادکیساتھ ساہیوال کی جانب سفر کر رہے ہیں ۔ دہشت گرد پولیس چیکنگ سے بچنے کیلئے اپنی فیملیز کے ساتھ سفر کرتے تھے ۔ انہوں سرنڈر کرنے کیلئے کہا گیا تو انہوں نے فائرنگ شروع کردی ۔دہشت گرد شاہد جبار ، عبد الرحمان اور ایک نامعلوم دہشت گردفائرنگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر موقع سے فرار ہوگئے جبکہ سی ٹی ڈی ٹیم نے موقع سے خود کش جیکٹیں ، ہینڈ گرنیڈزاور رائفلز سمیت دیگر اسلحہ اپنے قبضے میں لیا۔ سی ٹی ڈی فرار ہونے والے تین دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہے جبکہ تفتیش کے دائرہ کار کو بھی وسیع کردیا گیا ہے ۔ذرائع کے مطابق ساہیوال آپریشن میں ہلاک ہونے والے ایک دہشت گرد کا نام ذیشان ہے جبکہ عدیل حفیظ فیصل آباد آپریشن میں ہلاک ہوا تھا ۔داعش سے منسلک اس نیٹ ورک نے ملتان میں حساس ادارے سے منسلک تین افسران اور فیصل آباد میں ایک پولیس آفیسر کو ہلاک کیا تھاجبکہ امریکن شہری وارن وائن سٹائن اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں بھی یہی دہشت گرد ملوث تھے۔ اس کے علاوہ مذکورہ دہشت گرد متعدد کاروائیوں میں درجنوں معصوم شہریوں کو شہید کر چکے ہیں اور یہ پنجاب میں داعش نیٹ ورک کے سب سے خطر ناک دہشت گردوںمیں شامل ہیں ۔ ہوم سیکرٹری نے ساہیوال واقعے کی تفتیش کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دیدی ہے ۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی پولیس اسٹیبلیشمنٹ سید اعجاز شاہ ہونگے جبکہ انٹیلی جنس ایجنسیز آئی ایس آئی اور آئی بی کے ممبرز بھی اس جے آئی ٹی کا حصہ ہونگے۔جے آئی ٹی اپنی تحقیقات کرکے تین روز میں رپورٹ پیش کرے گی۔مبینہ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین سراپا احتجاج بن گئے۔ مظاہرین نے مین فیروز پور روڈ کو ٹائر جلاکر بلاک کردیا۔ جس کے باعث کئی گھنٹوں تک ٹریفک کا نظام درہم برہم رہا اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس بھی معطل ہوگئی۔مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والے ذیشان اور خلیل کے عزیز واقارب اور محلے داروں کا کہنا تھا مرنے والوں کا کسی دہشت گرد تنظیم کیساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔احتجاج ختم کروانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔جنہوں نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔بعدازں مسلم لیگی رہنما رمضان صدیق بھٹی اور ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن نے مظاہرین سے مذاکرات کیے ۔پولیس کی جانب سے اہل خانہ کو چاروں نعشیں سپردخاک کرنے کی یقین دھانی کرانے پرمظاہرین نے احتجاج ختم کیا ۔این این آئی کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا پولیس نے نہ گاڑی روکی اور نہ تلاشی لی بلکہ سیدھی فائرنگ کر دی۔ مقامی تھانہ یوسف والا پولیس نے ہلاک شدگان کی شناخت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ کارروائی سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی۔ میڈیا نمائندے جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو پولیس نے نعشیں ہٹا دی تھیں اور مبینہ طور پر ثبوت بھی مٹانے کی کوشش کی۔ سی ٹی ڈی کارروائی میں زخمی ہونے والے بچے عمیرخلیل کا کہنا ہے ’’ہم اپنے گاؤں بورے والا میں چاچو رضوان کی شادی میں جارہے تھے، فائرنگ میں مرنے والی میری ماں کانام نبیلہ اور والد کا خلیل بہن کا اریبہ ہے‘‘۔ بچے نے مزید بتایا ’’ہمارے ساتھ پاپا کے دوست ذیشان بھی تھے، جنہیں مولوی کہتے تھے۔ واقعے سے متعلق ترجمان سی ٹی ڈی کا کہنا ہے مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے ان کے قبضے سے 3 بچے بھی بازیاب کرائے۔ سی ٹی ڈی کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا مارے جانے والے افراد دہشت گردوں کے سہولت کار تھے۔ وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِاعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے اس کی فوری رپورٹ طلب کرلی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے کار پر فائرنگ کی گئی جبکہ کار سے جوابی فائرنگ اور مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ مارے جانے والے افراد کو جب گاڑی سے باہر نکالا جارہا تھا اس وقت کسی قسم کے ہتھیار بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہم ابتدائی تحقیقات کے بعد ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہامارے جانے والے افراد دہشت گرد نہیں تو سی ٹی ڈی اہلکاروں کو معطل کرکے ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔واقعہ میں کسی کی غفلت ثابت ہوئی تو اس کیخلاف ایکشن لیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر ذمہ داروں کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ ترجمان پولیس کے مطابق جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے افسراشامل ہوں گے۔ قبل ازیں جے آئی ٹی کا سربراہ ڈی جی آئی ذوالفقار حمید کو بنایا گیا تھا۔مقتول خلیل کی چونگی امرسدھو میں پرچون کی دکان ہے۔اطلاع پر ورثاء ڈی ایچ کیو ہسپتال ساہیوال پہنچ گئے اور واقعے کیخلاف احتجاج کیا۔ مشتعل ورثاء نے فیصل آباد روڈ کو دونوں اطراف سے بند کردیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب نے ساہیوال واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا وزیراعظم نے شفاف تحقیقات کے ساتھ واقعے کے ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ آن لائن کے مطابق سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق چاروں جاں بحق افراد کو اغوا کار قرار دیا گیا ہے۔ پولیس نے ایک آلٹو گاڑی اور موٹرسائیکل کو رکنے کا اشارہ کیا تو کار سوار افراد نے فائرنگ کردی۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں افراد ہلاک ہوگئے اور تین دہشت گرد موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ جاں بحق ہونیوالے افراد کے لواحقین پر قیامت ٹوٹ پڑی اور بورے والا میں شادی کی خوشیاں ماتم میں بدل گئیں۔ آئی این پی کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے ساہیوال واقعہ پر کہا ہے سی ٹی ڈی کا موقف غلط ثابت ہوا تو ذمہ داروں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ دونوں پہلوؤں سے حقائق کا جائزہ لے کر کارروائی کی جائے گی۔ اپنے ویڈیو بیان میں انہوںنے کہاوزیراعظم عمران خان نے ساہیوال واقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب سے بات کی ہے اوروزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو فوری طور پر ساہیوال پہنچنے کی ہدایت کی۔ فواد حسین نے کہاسی ٹی ڈی کا کہنا ہے دہشتگرد مارے گئے ہیں۔میڈیا اور بچوں کے بیانات کچھ اور بتا رہے ہیں ،وزیراعظم نے حقائق کو سامنے لانے کی ہدایت کی ہے،حقائق کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔آن لائن کے مطابق سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا ہے ساہیوال میں مرنے والے دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ ترجمان سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے مارا گیا دہشت گرد ذیشان کالعدم تنظیم داعش کا مقامی سرغنہ تھا۔ ترجمان سی ٹی دی کے بیان میں غلطی سے کارروائی کا پول کھل گیا۔ ترجمان نے بیان میں کہا ساہیوال واقعہ میں دو خواتین سمیت چار دہشت گرد مارے گئے کارروائی سولہ جنوری کو فیصل آباد میں ہونے والے آپریشن کا حصہ تھی جس میں دہشت گرد عبدالرحمن اور شاہد جبار ہلاک ہوگئے تھے۔ ساتھ ہی کہہ دیا ساہیوال میں کارروائی کے دوران چار دہشت گرد ہلاک اور شاہد جبار عبدالرحمن اور ایک نامعلوم دہشت گرد فرار ہوگئے۔آئی این پی کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی نے کہاہے کہ وزیراعظم بہت زیادہ افسردہ ہیں اور فکرمند بھی، بچوں کا کوئی قصور نہ تھا، وزیراعظم رحم دل انسان ہیں، بچوں کی دیکھ بھال حکومت کرے گی۔ ترجمان وزیراعلی پنجاب نے گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افتخار درانی نے کہا کہ وزیراعظم اس واقعہ پر بہت زیادہ افسردہ ہیں اور فکرمند بھی، بچوں کا کوئی قصور نہ تھا، بچوں کو سپورٹ کیا جائے گا، وزیراعظم رحم دل انسان ہیں، بچوں کی دیکھ بھال حکومت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ساہیوال واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، وزیراعظم واقعے سے متعلق وزیراعلی پنجاب سے رابطے میں ہیں، وزیراعظم نے فی الفور تحقیقات کراکے حقائق سامنے لانے کی ہدایت کی ہے۔محلے داروں نے بتایا ذیشان اپنی گاڑی چلاتا تھا، بکنگ پر خلیل کی فیملی کو لے جا رہا تھا۔ ذیشان کو 25 سال سے جانتے ہیں۔ واقعہ میں ہلاک خلیل کے بھائی جلیل نے بتایا تین گاڑیوں میں شادی کی تقریب کیلئے بوریوالہ جا رہے تھے۔ بڑے بھائی نے اطلاع دی خلیل سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ مرنے والے ذیشان کا بھائی احتشام ڈولفن پولیس میں ملازم ہے۔