میرے والد میرے ہیرو

Jan 20, 2020

اسلم لودھی

جب بھی جنوری کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو نہ جانے کیوں مجھے اپنے مرحوم والد کی یاد زیادہ شدت سے آنے لگتی ہے ‘یوں تو والد کا مطلب ہی ایسا سائبان ہے جو خود تلملاتی دھوپ میں جھلستا ہے اور اپنے بچوں کو دھوپ کی شدت سے محفوظ رکھتا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ میرے والد ( محمد دلشاد خان لودھی ) محکمہ ریلوے میں بطور کیبن مین ملازم تھے۔ 1958ء سے 1964تک ان کی تعیناتی حبیب آباد میں تھی ۔ریلوے ملازمین تین شفٹوں میں ڈیوٹی انجام دیا کرتے تھے ۔دن میں تو پھر گزارا ہوجاتا تھالیکن رات کی بالخصوص پچھلے پہر کی ڈیوٹی اس قدر سخت اور تکلیف دہ ہواکرتی تھی کہ اس کاتصورکرکے ہی کلیجہ مونہہ کو آتا ہے۔ ذرا تصور کریں رات کا پچھلا پہر ہو ۔ سائبریا کی سرد ہوائیں جسم کو چیرتی ہوئی گزر رہی ہوں۔ ریلوے ٹریک کی دونوں جانب لہلہاتے کھیتوں کی وجہ سے سردی کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے ‘ خطرناک درندوں‘ بھوت پریتوں اور چڑیلوں کی بازگشت عام سنی اور سنائی جاتی ہو ‘ اس خوفناک اور سرد ترین ماحول میں میرے والد گہری نیند سے بیدار ہوکررات بارہ بجے گھر سے پیدل ہی چلتے ہوئے تن تنہا کیبن کی جانب چل پڑتے‘ ان کے ہاتھ میںصرف ایک لالٹین نما‘ بتی ہوا کرتی تھی جس کی معمولی سی روشنی میں وہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں راستے کا تعین کرتے ‘جنگلی درندوں کے خوف کے ساتھ ساتھ جسم کو چیرتی ہوئی سرد ہواانہیں کس قدر مضطرب کرتی ہوگی اس کا اندازہ یقینا انہی کو ہوگا۔ خدا خداکرکے گھر سے کیبن تک کا سفر مکمل ہوتا تو کیبن ایک دو منزلہ مکان کی طرح ریلوے اسٹیشن سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل بیابان میں موجود تھی ‘لکڑی کے پھٹوں سے بنی ہوئی چھت پر وہ ایک سٹول پر بیٹھ جاتے ‘ جہاں سے ٹھنڈی ہوا کے سرد جھونکے انہیں ہر لمحے بے چین کیے رکھتے ‘ جب کراچی سے لاہور یا لاہور سے کراچی جانے والی گاڑی کا سلاٹر بولتا تو وہ لوہے کے یخ بستہ بھاری بھرکم لیورز کو دونوں ہاتھوں اور پوری طاقت سے کھینچ کر سیٹ کرتے کانٹے سیٹ کرنے کے بعد سنگل ڈائون کرتے تاکہ ٹرین ڈرائیور کو لائن کلیئر کا پتہ چل سکے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ ڈیڑھ من بھاری لیور دستانے پہن کر نہیں کھینچے جاسکتے تھے انہیں ننگے ہاتھوں سے ہی پوری طاقت سے کھینچنا پڑتا تھا۔ جس سے پورے جسم میں سردی کی ایک اورلہر سر سے پائوں تک سرایت کرجاتی اور انسان اس وقت تک بے چین رہتا جب تک دستانوں میں ہاتھ گرم نہ ہوجاتے ‘ اسی اثنا میں دوسری ٹرین کے گزرنے کا وقت ہوجاتا ‘ اس ماحول میں مزید شدت اس وقت پیدا ہوتی جب کیبن کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوںسے ٹھنڈی ہواکے جھونکے پہلے سے کہیں زیادہ رفتار سے کیبن کے بالائی حصے پر بیٹھے ہوئے انسان کو چھو کرگزرتے ۔اکثر اوقات اوٹر سگنل جو کیبن سے بھی ایک کلومیٹر مزید دوری پر نصب ہوتا‘ اس میں جلنے والا چراغ ہوا کی شدت سے اگر بجھ جاتا تو کیبن مین کی ہی ڈیوٹی تھی کہ وہ کیبن سے اتر کرآندھی طوفان اور خوفناک ماحول میں وہاں پہنچے اور 20 فٹ بلند سگنل کی سیڑھی چڑھ کر بجھے ہوئے چراغ کو دوبارہ روشن کرے۔ یہ باتیں میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آبادی بے شک بڑھ چکی ہے ‘ زمانہ بے شک ترقی کرچکا ہے لیکن کیبن مین کی ڈیوٹی آج بھی اتنی ہی سخت اور اذیت ناک ہے کہ اس کے عوض محکمہ ریلوے ‘ میرے والد کو اس وقت صرف 80روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتا تھا ۔ اس قلیل رقم سے بمشکل گھر کے اخراجات اور ہمارے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے۔۔جب والد رات کے بارہ بجے گھر سے نکلنے لگتے تو میری آنکھ کھل جاتی ‘ میں چونکہ اپنے والد کے ساتھ ہی سویا کرتا تھا‘ سچ کہوں تو مجھے اپنے والد کے بغیر نیند نہیں آتی تھی ۔ میں رضائی میں لیٹا ہوا سوچتا رہتا تھا کہ میرے والد اتنی سردی اور خوفناک ماحول میں گھر سے کیوں نکل رہے ہیں ‘ پھر یہ خیال مجھ پر غالب آجاتا کہ وہ یہ سب کچھ ہمارا پیٹ بھرنے کے لیے کررہے ہیں تاکہ میں پڑھ لکھ کر اچھا انسان بن سکوں۔والد مرحوم کی قربانیوں کا سلسلہ یہاں ہی نہیں ختم ہوتا ۔انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر1964ء میں لاہور کینٹ ٹرانسفر کروالی اوریہاں انہیں بطور شٹنگ پورٹر کی انتہائی خطرناک ڈیوٹی ملی ۔ ایک مرتبہ میں پلیٹ فارم پر کھڑا تھا میرے والد ڈیڑھ دومن وزن کا کپلین اٹھا کر ریلوے ٹریک کے درمیان میں کھڑے تھے‘ جیسے ہی انجن ایک دھماکے سے ٹکرایا تو والد محترم نے اپنے ہاتھوں میںاٹھایا کپلین انجن کے ہک میں ڈال دیا اور تیزی سے ریلوے لائن سے باہر نکل آئے۔جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو میں نے خوف کے مارے اپنی آنکھیں بند کرلیں ‘ ایک لمحے کی سستی انسان کے کتنے ہی ٹکڑے کرسکتی تھی ۔یہ خطرناک ترین ڈیوٹی میرے والد ہمارے سکھ اور چین کے لیے انجام دیتے رہے۔ لاہور شفٹ ہونے کے بعد قلیل تنخواہ میں جب اخراجات پورے نہ ہوئے تو انہوں نے لکڑیوں کے بھرے ہوئے ریل کے ڈبے خالی کرنا شروع کردیئے ۔جس کے عوض صرف 3روپے مزدوری ملتی تھی ۔یہ روزانہ کا روٹین تھا والد اور ہم تینوں بڑے بھائی اکٹھے ہوکر سارا دن مشقت کرتے آج اللہ تعالی نے ہمیں جو مقام عطا کیا ہے اس کا کریڈٹ میرے عظیم والد اور والدہ کو بلاشبہ جاتاہے ۔آج میرے والد کو دنیا سے رخصت ہوئے 26سال ہوچکے ہیں جب میں انکی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے میرے کسی ہیرو سے کم دکھائی نہیں دیتے ۔اللہ ان کو جنت میںاعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین

مزیدخبریں