چودھری محمد حسین چٹھہ اور مجید نظامی

بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی دیانت, صداقت اور لیاقت و بصیرت کے ان کے بدترین دشمن بھی قائل تھے ۔مس سروجنی نائیڈونے ایک موقع پر کہا کہ اگر مسلم لیگ میں سو ابوالکلام ، دو سو نہرو ہوتے اور کانگریس میں تنہا جناح ہوتے تو پاکستان کسی صورت وجود میں نہ آتا ۔آپ کی اعلیٰ شخصیت اور مضبوط و مدلل موقف کے سامنے چالاک انگریز ٹھہر سکا نہ مکار ہندو ئوں کی دال گل سکی ۔جہاں تک مسلم لیگی کارکنوں کا تعلق تھا تو ہر پیروجواں آپ کے اعلیٰ اصولوں اور دیانت و صداقت پر مبنی شخصیت کی پیروی و تقلید کو ثواب کے درجے تک تصور کرتا تھا ۔حضرت قائد کے انہی رفقاء اور پروانوں میں ایک نام چوہدری محمد حسین چٹھہ کا بھی ہے جو ضلع شیخوپورہ کے ایک قصبہ چاندی کوٹ میں ایک متوسط زمیندارگھرانے میں 1914 میں پیدا ہوئے ۔حضرت قائداعظم سے ملے اور بطور طالب علم تحریک آزادی میں شامل ہوگئے ۔ آپ نے طلبہ میں بیداری کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں بھی حضرت قائد کے پیغام کو عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔1940لاہور میں ہونے والی عظیم الشان تقریب میں نوجوان چٹھہ نے انتظام وانصرام میں نمایاں کردار ادا کیا ۔آپ دنیا کی ہر آسائش و خواہش اور مصروفیت کو خیر آباد کہتے ہوئے دیوانہ وار تحریک پاکستان میں جتے رہے ۔1946اور پھر 1951میں صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں کامیاب ہوئے تو آپ کو وزیر مال واریگزیشن بنایا گیا ۔آپ نے اپنی سرکاری ذمہ داریاں کمال فرض شناسی سے نبھائی جو آنے والی نسلوں کے لئے درس حیات ہے ۔ایوبی دور میں سیاستدانوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے ایبڈو نامی قانون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔جس سے ساری سیاست بری طرح متاثر ہوئی۔ لوگوں نے یہ پابندی مارشل لائی خوف سے قبول کرلی مگر چند ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنے شفاف کردار کے باعث اس کالے قانون کو چیلنج کیا ۔محمد حسین چٹھہ پر الزام لگا کہ انہوں نے اپنی زمینوں پر کاشت کے دوران موہگے کو حق سے زیادہ کشادہ کیا ۔ اپنی سرکاری حیثیت سے فائدہ اٹھایا ۔جب الزام چیلنج ہونے کے بعد تفتیش کے مرحلے میں آیا تو معلوم ہوا کہ وزیر اری گیشن محمد حسین چٹھہ نے اپنے مقررہ حق سے موہگہ چھوٹا کرکے کم پانی حاصل کیا جس کی نظیر شاید پاکستان میں اب نہ مل سکے ۔محمد حسین چٹھہ نے بے اصولی پر اپنے دیرینہ مسلم لیگی ساتھیوں کو چھوڑکر پیر پگارو سے سیاسی وابستگی قائم کی جو مرتے دم تک قائم دائم رہی۔ آپ پیر پگارو کو سچا پکا مسلم لیگی اور پاکستان سے محبت کرنے والا تصور کرتے تھے ۔پیر پگاروبھی چٹھہ صاحب کی دوستی اور بلند کرداری کے معترف تھے ۔بزرگ مسلم لیگی رہنما بدرالزماں ورک کا کہنا ہے کہ چودھری محمد حسین چٹھہ انتہائی عبادت گزار ، خدا ترس اور صاحب کردار شخصیت تھے ۔وہ اپنے ان دوستوں سے نالا ں تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت اور عبادت سے نکال کر صنعت لے درجے پر لے آئے ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مسلم لیگ پر غیر نظریاتی لوگوں کا قبضہ ان کی زندگی کا بڑا المیہ تھا ۔ وہ جاتے جاتے پاکستان کو حضرت قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے چلے گئے ۔چودھری محمد حسین چٹھہ اور جناب مجید نظامی نظریاتی مسلم لیگی اور قائداعظم سے عقیدت و محبت کے باہم رشتے کے باعث ہر دور میں یکساں موقف پر اڑے اور کھڑے نظر آتے ہیں ۔ہر آمر اور پاکستان گریز قوتوں کے مقابلے میں سینہ سپر دکھائی دیتے ہیں ۔یہ دوستی اور محبت کا رشتہ آخری دم تک قائم رہا ۔امام صحافت حضرت مجید نظامی چودھری محمد حسین چٹھہ کی نظریاتی وابستگی بلند کرداری اور قائداعظم اور مسلم لیگ سے اٹوٹ محبت کے زبردست قائل تھے ۔ ایک موقع پر جناب مجید نظامی فرماتے ہیں کہ چودھری محمد حسین چٹھہ اور میرے نظریات سوچ اور منزل ایک ہی تھی ۔ چٹھہ صاحب کا تعلق شیخوپورہ سے تھا جبکہ میں سانگلہ ہل سے ہوں ۔میں انہیں پنجاب اور پاکستان کی سیاست کے حوالے سے خوب جانتا ہوںجنہوں نے اپنے کرداروافکار کی انمٹ مثالیں چھوڑیں جو آئندہ نسلوں کے لئے مثل مشعل ہیں۔ مجھے شیخوپورہ چٹھہ صاحب کے پاس کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ۔یقینا چودھری محمد حسین چٹھہ کی ذات و حیات دور حاضر کے ہر اس فرد کے لئے سنگ میل ہے جو اپنی زندگی اور آخرت سنوارنا چاہتا ہے ۔ میرا دعوی ہے کہ آج کے معاشرے کا کوئی شخص چاہے کہ ایسی زندگی گزارے جو گردو نواح کے لوگ ا سکی پیروی کریں ۔قرب پانے والے لوگ راستگی و شائستگی کے رویے اختیار کریں ۔ چاہیں کہ اس کی اولاد اس کے قول و عمل پر نازاں ہوں تو ایسے خواہشات کے حامل افراد کو بزرگ معظم چودھری محمد حسین چٹھہ کی شخصیت کا مکمل مطالعہ کرنا ہوگا ۔اگر آج کے کسی پارلیمنٹیرین کے دل میں تمنا اٹھے کہ ملکی فلاح اور عوامی خوشحالی کے ضمن میں کوئی قابل فخر کارنامہ سرانجام دے سکے جو ہمیشہ کے لئے یادگار دستاویز ثابت ہو ۔اگر کوئی سیاسی کارکن شوکت و عشرت طمع و ہوس کے دور میں ایک اعلیٰ کردار کے نقوش چھوڑنا چاہے جس کے باعث قیامت تک اس کا نام پائندہ و تابندہ رہے تو ایسے کارکنان اور پارلیمنٹیرین پر واجب ہے کہ حضرت قائداعظم کے نابغہ روزگار سیاسی فرزند اور ملت پاکستانیہ کی پارلیمانی تاریخ کے درخشندہ ستارے فکر قائد کے امین اور دو قومی نظریے کے علمبردار محمد حسین چٹھہ کی حیات کا مطالعہ کرکے آگاہی اور رہنمائی حاصل کرے ۔

ای پیپر دی نیشن