نصف صدی کا قصہ ہے ایک دو دن کی بات نہیں ۔جی یہ فقرہ امجد اسلام امجد صاحب کے لیے بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا بہت دیکھی ہے کچھ لوگ یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے لوگ انہیں جانتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے بارے دنیا اعلان کرتی ہے کہ ہم ان صاحب کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ مانتے ہیں ۔جی ہاں میری مراد یہاں بھی امجد اسلام امجد ہی ہیں۔
گزرے دسمبر میں امجد اسلام امجد صاحب کو ترکی کے شہر استنبول میں نسیپ فاضل بین الاقوامی ثقافت اور آرٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں اور اس تقریب میںامجد صاحب کیی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے ترک صدر نے جو تقریر کی وہ بہت اہمیت کی حامل ہے اور امجد اسلام امجد کے حوالے سے انہوں نے جو باتیں کیں ان سے پتہ چلتا تھا کہ اہل ترک نے امجد صاحب کو کس گہرائی سے پڑھا ہے۔ترکی نے امجد اسلام امجد کو یہ ایوارڈ دے کر ہمیں احساس دلایا ہے کہ آپ کے ملک میں ایک ایسا ہیرا موجود ہے کہ جسے عالمی سطح پر پہچانا جا رہا ہے اور جب بھی کسی فرد کو کسی عالمی پلیٹ فارم پر پذیرائی ملتی ہے تو وہ صرف ایک فرد کی پزیرائی نہیں ہوتی بلکہ پورے ملک کی پذیرائی ہوتی ہے اور امجد سلام امجد کو ترکی سے ملنے والا ایوارڈ دراصل پاکستان کو ملنے والا ایوارڈ ہے پاکستان کی ادبی ثقافتی اور علمی بڑائی کا اعتراف ہے کہ امجد اسلام امجد صاحب کو ملنے والا یہ ایوارڈ نہ صرف اُن کے لیے بلکہ ِاس ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ملک کے کسی شخص کی خدمات اور اس کی تصانیف کی اہمیت دوسرے ملکوں کی نگاہ میں بھی قابل ستائش بنی ہے اور پہچانی گئی ہے۔اخبارات میں خبریں لگیں تو میرے ملک کے علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی لوگ بہت خوش ہوئے ۔بہت سے تجزیہ نگاروں نے اسے پاک ترک دوستی میں ایک خوشگوار جھونکے کا نام دیا ۔ امجد اسلام امجد کی شاعری کے عربی فارسی ترکی,چینی اور کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور دنیا بھر کے لوگ ان کی شاعری کو پڑھنا پسند کرتے ہیں اور اپنے قلم کی طاقت سے انہوں نے بہت سارے ممالک میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے ۔جہاں جہاں لوگوں کو شاعری یا ڈرامے کا شوق ہے وہاں وہاں موصوف کو ہر دل عزیز شاعر اور محبوب لکھاری کی حثیت حاصل ہے کسی مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی سمجھا جاتی ہے ۔ایک اچھے شاعر ایک اچھے ڈرامہ نگار ایک اچھے مقرر ایک اچھے ترجمہ کار کے ساتھ ساتھ وہ ایک بہت اچھے انسان بھی ہیں اور ان کی شخصیت میں دوستی ,اپنائیت اورخلوص کا پہلو نظر آتاہے ان کی محفل میں بیٹھتے ہی آپ چھوٹے بڑے اور دوسرے طبقاتی فرق کو بھول جاتے ہیں۔شاید اسی لیے وہ ایک ہر دلعزیز انسان ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ہلکا پھلا مزاح ان کی شخصیت کی خاص خوبی ہے اور جس محفل میں موجود ہوں اُسے علم و حکمت کے موتیوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوبصورت فقروں سے چار چاند لگا تے دکھائی دیتے ہیں۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ امجد صاحب کو جو عزت و شہرت ملی ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔50 سال پر محیط کیریئر میں انہوں نے 40 سے زیادہ کتب لکھی ہیں ۔ٹی وی کے لئے ادبی کام کرنے پر انہیں بہت سارے ایوارڈز مل چکے ہیں، جس میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز بھی شامل ہیں۔ امجد صاحب وارث سمیت پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے لئے متعدد ڈرامہ سیریز کے مصنف ہیں۔ انہوں نے بہت سارے کالم، ترجمہ، تنقید اور مضامین لکھے ہیں جبکہ ان کی مرکزی توجہ اردو نظم رہی۔دیکھا گیا ہے کہ مشاعرے میں عموما شاعر زیادہ تر غزل ہی پڑھتے ہیں اور سننے وا لوں سے غزل کو ہی زیادہ پذیرائی ملتی ہے لیکن امجد اسلام امجد کا بنیادی تعارف ایک نظم گو شاعر کے حوالے سے بن چکا ہے اور ان کی نظموں کی جو پذیرائی ملی ہے وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آئی ہوگی ۔پسندیدگی کا عالم تو یہ ہے کہ لوگ ان سے نظموں کا نام لے کر فرمائش کر کے سنتے ہیں۔ایک نظم کچھ یوں ہے۔
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے تو ۔۔۔۔
مگر یہ ممکن ہی کیسے ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوئوں میں تمہیںملوں گا
مجھے گلاب کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئنوں میںتمہیں ملوں گا