دوسرے صوبوں کی گاڑیوں کی دوبارہ رجسٹریشن، محکمہ ایکسائز پنجاب نے اجازت مانگ لی

لاہور (معین اظہر سے) محکمہ ایکسائز پنجاب نے دیگر صوبوں کی گاڑیوں کو دوبارہ پنجاب میں رجسٹرڈ کرکے کے نئی نمبر پلیٹ جاری کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔ جبکہ 2004 میں محکمہ ایکسائز نے حکومت سے سیکشن 29 اور سیکشن 30 موٹر وہیکل آرڈنینس 1965 میں ختم کیا گیا تھا کہ دوسرے صوبوں کی گاڑیاں یہاں پر رجسٹرڈ نہیں ہو سکتیں کیونکہ اس وقت وجہ بتائی گئی تھی کہ سمگل شدہ گاڑیاں اور چوری کی گاڑیاں دوسرے صوبوں میں جعلی کاغذات پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں وہ بعد ازاں پنجاب میں دوبارہ رجسٹرڈ کروا لی جاتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کو امپورٹ ڈیوٹی کا بھاری نقصان ہو تا ہے۔ جبکہ چوری کی گاڑیاں جعلی کاغذات پر رجسٹرڈ ہو کر دہشت گردی اور دیگر کاموں کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں ۔ جس پر 2016 میں دوبارہ سیکشن 30 بحال کر دی گئی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس لئے سیکرٹری ایکسائز پنجاب نے حکومت پنجاب کو دوبارہ رجسٹریشن کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔ واضح رہے کہ سیکشن 29 اور سیکشن 30 کو ختم کرنے کے بعد ملک میں چوری کی گاڑیوں میں واضح کمی آئی تھی جبکہ سمگل شدہ گاڑیاں بھی کم ہوئی تھیں ۔ تقریبا 9 سے 11 ارب روپے کی گاڑیاں ملک سے چوری ہوتی تھیں جو کم ہو کر تقریبا 6 ارب تک 2020 تک چلی گئی تھیں جبکہ اسی طرح بڑی سمگل شدہ لگثری گاڑیوں کی سمگلنگ میں بھی کمی ہوئی تھی لیکن اب اگر دوبارہ ری رجسٹریشن کی اجازت دی گئی تو محکمہ ایکسائز کے اہلکاروں کی لاکھوں کروڑوں روپے کی ناجائز آمدن دوبارہ شروع ہو جائے گی ۔ ذرائع کے مطابق اس کے لئے کوئی نیا طریقہ اپنایا جانا چاہیے تھا ۔ تاہم محکمہ ایکسائز کے اعلی افسران سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اجازت مانگی ہے اس کے لئے ایس او پیز بھی طے کرکے منظوری کے لئے بھجوائے گئے ہیں ان ایس او پی کے مطابق صرف مالک ہی ری رجسٹریشن کی درخواست دے سکے گا۔ اوپن ٹرانسفر لیٹر پر کوئی گاڑی ری رجسٹریشن نہیں کی جائے گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے بڑی گاڑیاں ری رجسٹریشن کے لئے آئیں گی ان کے لئے پہلے فٹنس سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا۔ اس کے بعد ری رجسٹریشن کے وقت گاڑی یا وہیکل کی فوٹو گراف لے کر اس کو فائل میں رکھا جائے گا۔ تمام کاغذات کی تصدیق ریجنل اتھارٹی سے کروائی جائے گی۔ گاڑی کی رجسٹریشن کے بعد اصل رجسٹریشن اتھارٹی کو کہا جائے گا کہ وہ اصل کاغذات بھجوا دے ان اصل کاغذات کو سکین کرنے کے بعد مالک کو دے دیا جائے گا۔ نئی نمبر پلیٹ کے اجراء کے وقت پرانی نمبر پلیٹ کو ختم کردیا جائے گا جس کا ریکارڈ بھی رکھا جائے گا۔ اس کے لئے پی آئی ٹی بی کو کہا جائے گا کہ محکمہ ایکسائز کے سافٹ وئیر میں بھی تبدیلی کر لی جائے ۔ تاہم جس وقت محکمہ ایکسائز کے لوگوں سے پوچھا گیا کہ پہلے بین الصوبائی گروہ بنے ہوئے تھے جو ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر اربوں روپے کی ٹیکس چوری ، اور لوگوں کی چوری کی گاڑیوں کی ری رجسٹریشن کروا لیتے تھے اور چوری کی گاڑیاں دوسرے صوبوں میں استعمال ہوتی ہیں اس کا جواب نہیں دیا گیا تاہم ماضی میں طاقتور افراد بڑی لگثری گاڑیاں ، جیپ ، اور ٹرانسپورٹر بڑی گاڑیاں بغیر ڈیوٹی کے منگواء لیتے تھے ایسے بین الصوبائی گروہوں اور ایکسائز کے عملے کی ملی بھگت سے سرکار کو پیسے ملنے کی بجائے اربوں روپے جعل سازی سے کما لیتے تھے۔ اور ایک صوبے کا محکمہ ایکسائز کئی کئی سال گاڑی کے اصل کاغذات کے لئے دوسرے صوبے کو لیٹر لکھتا رہتا تھا ۔ دوسرے صوبے کا ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کاغذات نہیں بھجواتا تھا جبکہ این او سی دے دیا جاتا تھا اب بھی ایسا ہی ہو گا ۔ اب سیکرٹری ایکسائز نے جو اجازت مانگی ہے اس میں کہا ہے کہ لوگوں کو گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس دینے میں پریشانی ہوتی ہے جبکہ امن وامان قائم کرنے والے اداروں کو بھی پریشانی ہوتی ہے جبکہ ٹوکن ٹیکس ریونیو بھی ضائع ہو جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن