مہنگائی …!حکومت ، اپوزیشن اور چودھری برادران 

مجھ جیسا عام آدمی کسی کا وکیل ہے نہ کسی کا ناقد، جانے والوں کے لئے طعن و تشنیع نہ ’’جان چھوٹی سو لاکھوں پائے‘‘ ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ جیسے القاب و خطابات ہیں اور نہ ہی آنے والوں کی تحسین و ستائش کے لئے ’’اھلاً و سہلاً و مرحباً ‘‘ جیسے کلمات ترحیب ہیں ، عام آدمی کو تو بس اپنے معاملات ، معمولات اور اپنی صبح و شام سے سروکار ہوتا ہے ، وہ ہر لمحہ یہی سوچتا ہے کیا کمانا ہے اور کیا کھانا ہے۔ حکمرانوں کے ’’عوامی ، جمہوری ‘‘ رویے عوام کو ہمیشہ اسی الجھائو میں رکھتے ہیں ، عوام بے چارے کسی لمحہ بھی تاریخی نعرے ’’روٹی ، کپڑا ، مکان‘‘ کے تصور سے باہر نہیں آتے۔ حکومت کوئی بھی ہو، زمام اقتدار کسی کے ہاتھ میں بھی ہو ، ایوانوں میں اکثریت کسی بھی پارٹی کی ہو۔ ’’روٹی ، کپڑا ، مکان ‘‘ کا پرکشش و دلفریب نعرہ سب ہی لگاتے ہیں لیکن ایک طے شدہ ایجنڈے کے مطابق نعرے سے آگے نہیں بڑھتے کیونکہ اگر عوام کو واقعی روٹی ، کپڑا ، مکان مل گیا تو پھر سیاست ختم ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے حکمران ہوں یا اپوزیشن ہو، دونوں عوام کی خیر خواہی کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ حکمران دعوے کرتے ہیں کہ عوام کی 73 سالہ محرومیوں کا ازالہ کر دیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی عوام کے صدقے واری جاتی نہیں تھکتی۔ وہ اپنی ساری جدوجہد کا مرکز و محور عوام کی محرومیاں دور کرنے کو ہی بتاتی ہے لیکن حقائق فریقین کی طرف سے کیے جانیوالے خیر خواہی کے دعوئوں کا منہ چڑاتے ہیں کیونکہ حکومت اوراپوزیشن ہر دو ’’سیاسی خاندانوں‘‘ کا ’’سلسلہ نسب سیاست‘‘ ایک ہی ہے ، دونوں کا طرز زندگی شاہانہ ہے ، اس ’’خانوادۂ سیاست‘‘ سے تعلق رکھنے والا ہر فرد فکر معاش سے آزاد ہے ، آٹے ، دال کا بھائو کسی کو معلوم ہے نہ کبھی کسی کے بچے بھوکے سوئے ہیں ، وسائل کی عدم دستیابی اور مسائل کی بھرمار ان کاکبھی مقدر نہیں بنی۔ چمچماتی (سرکاری و غیر سرکاری) گاڑیاں دونوں کے ’’کانوائے‘‘ میں شامل ہوتی ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری ، جائز ، ناجائز وسائل کے بے دریغ استعمال سے ان کے چہروں کی چمک دمک ہر وقت عوام کو مسحوراورمرعوب رکھتی ہے۔ ان کو عوامی مسائل سے بس اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی کسی خاتون کو اپنی سوتیلی اولاد سے ہوتی ہے اسی وجہ سے تو اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں ہر روز بڑھتی ہیں ۔ آٹا ، گھی ، چاول ، چینی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں روزانہ اضافہ ہوتا ہے ، سبزیوں ، دالوں کے بھائو بھی کنٹرول نہیں ہو رہے۔ رہی سہی کسر پٹرولیم مصنوعات کی 15 دن میں دو بار قیمتیں بڑھا کر نکال دی جاتی ہے ، پہلے 11 روپے کی سمری بھیجی جاتی ہے۔ پھر وزیراعظم عوام پر ترس کھاتے ہیں اور 3 روپے نرخ بڑھائے جاتے ہیں۔ گویا ’’موت دکھا کر بخار پر راضی کیا جاتا ہے۔‘‘ (یہ روایت بھی اپنے اندر ’’وراثتی جمہوری تسلسل‘‘ لئے ہوئے ہے۔) 
کیونکہ سابقہ حکومتیں بھی ایسا ہی کیا کرتی تھیں۔ بدقسمتی سے ہمارا ’’مقتدر طبقہ‘‘ (حکومت‘ اپوزیشن) سمجھتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی متاثر نہیںہوتا حالانکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متاثر ہی صرف عام آدمی ہوتا ہے کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے صرف فضائی سفر مہنگا نہیں ہوتا‘ موٹرسائیکل رکشے بھی کرایہ بڑھا دیتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے‘ لیکن اس مہنگائی کے حق میں بھی دلائل دیئے جاتے ہیں۔ وزیروں‘ مشیروں کی فوج ظفر موج کا کام صرف یہی رہ گیا ہے کہ مہنگائی کا جواز ثابت کیا جائے‘ اسی لئے وہ ہر لمحہ چینلز پر بیٹھ کر اپنی حکومت کی وکالت کر رہے ہیں اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کو وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
 چند تقریروں‘ بیانوں اور تصویروں کے ساتھ 
عیش و عشرت ہے بپا ہر قصر و ہر ایوان میں 
لیکن بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن نے بھی کبھی مہنگائی کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ ان کا سارا زور ’’سلیکٹڈ‘ پر ہی ہوتا ہے‘ تاہم چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویزالٰہی اس حوالے سے عوام کے لئے امید کی کرن ہیں۔ وہ انتہائی اہم اتحادی ہونے کے باوجود مہنگائی کے حوالے سے حکومت کو احساس ذمہ داری دلاتے رہتے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین نے تو کئی بار کہا ہے کہ تمام ترقیاتی و غیر ترقیاتی منصوبے ایک سال کے لئے ملتوی کر کے مہنگائی پر توجہ دی جائے ، عوام کو ریلیف دیا جائے ، حکومت اوراپوزیشن اسی ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق و متحد ہو جائیں۔ چودھری پرویزالٰہی بھی پسے ہوئے طبقے کو ریلیف دینے کاکہہ رہے ہیں۔ کسانوں کے مسائل پر انہوں نے جرأت مندانہ موقف اختیارکیا وہ بھی قابلِ ستائش و لائق تحسین ہے لیکن وزیر ، مشیر مہنگائی کے حق میں مسلسل دلائل دئیے جا رہے ہیں اور اپنی اپنی وزارتوں کے تمام وسائل مہنگائی کے جواز کو ثابت کرنے کے لیے جھونک رہے ہیں۔ عوام جائیں بھاڑ میں ، حکومت کو اس سے کچھ غرض ہے نہ اپوزیشن کو ، البتہ فریقین اپنی اپنی کارکردگی سے مطمئن ضرور ہیں۔ جیسا حفیظ جالندھری نے کہا ہے کہ؎
کیوں گروہ عام کی ذلت کا غم کھائیں خواص
جن کو اس ذلت میں لذت کے ذخیرے مل گئے
کشتیاں گرداب میں چھوڑو‘ خدا حافظ کہو
ناخدائو خوش رہو‘ تم کو جزیرے مل گئے
قافلے برباد ہوکر رہ گئے‘ تو کیا ہوا
مطمئن ہیں قافلہ سالار اپنے کام سے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن