غزل اردو شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جسے اپنی ہر دلعزیزی اور مقبولیت کے باعث ارود شاعری کے ماتھے کا جھومر کہاجاتا ہے۔محض دو مصروں میں کسی خیا ل کو اس کمال اور ہنر مندی سے باندھنا کہ سننے والے بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھیںغزل کا ہی خاصا ہے مگر ایسا شعر کہنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اسکے لئے شاعر کو کسی پُردرد احساس کی دشوار گزارمسافتوں سے گزر کرجن ریاضتوں اور فنی نزاکتوںکا خیال رکھنا پڑتاہے اس کا اندازہ آتش کے اس مصرعے سے کیا جا سکتا ہے’’ شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا‘‘۔مگر یہ پرانے وقتوں کی بات ہے آج وقت کے ساتھ جہاں زندگی کے بے شمار’’فارمولے ‘‘تبدیل ہوگئے ہیں وہاں کچھ نئے شعراء کے کلام کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے اب شاعری جیسا نفیس کام بھی مرصع سازوں کی بجائے مربع سازوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔لیکن اس کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ اب اچھی شاعری نہیں ہورہی۔چند ایک’’سرپھرے ‘‘آج بھی موجود ہیں جو اپنی لگن،محنت اور جنون سے غزل کی شمع کو روشن کیے ہوئے ہیں اور ایسے ایسے خوبصورت شعر کہہ رہے ہیں جو خواص کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے عام قارئین میں بھی زبانِ ز دِعام ہیں۔ یقینا یہ وہ مقبول عام اشعار ہیں جو ہمارے قارئین کی اکثریت نے پہلے سے پڑھ رکھے ہوں گے آج اس کالم میں ہم ایسے ہی شہرہ آفاق اشعار کو اپنے انداز میںخراجِ تحسین پیش کریں گے۔ وہ یوں کہ ان اشعار میں ہم نے اپنی طرف سے ایک دو لفظوں کی تبدیلی سے ان کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی ہے جس کی بنیاد طنزومزاح پر رکھی ہے ۔امید ہے کہ طنزو مزاح سے وابستہ افراد کے لئے اس میںکچھ نہ کچھ دلچسپی کا پہلو ضرور نکل آئے گا۔ عرض کیا ہے ؎
اُن کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا’’ منہ‘‘اچھا ہے
عجب اس دور میں اک معجزہ دیکھا کہ پہلو سے
یدِ بیضا نکلنا تھا مگر ’’بیضہ‘‘نکل آیا
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے ’’کس کا ‘‘زیوربیچا تھا
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
’’نرگس ‘‘کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
غریبِ شہر فاقوں سے مر گیا عارف
امیرِشہر نے’’شیرے‘‘سے خودکشی کر لی
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر ’’پہ احسان‘‘کر گیا
اُس نے ہنسی ہنسی میں ’’کھلانے ‘‘کی بات کی
اور میں نے عدیم اُس کو مکرنے نہیں دیا
تم سمند ر کی بات کرتے ہو
لوگ ’’نالوں ‘‘میں ڈوب جاتے ہیں
چند تصویرِ بتاں،چند حسینوں کے خطوط
بعد ’’چھاپے‘‘کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
جو بھی بازار میں دم بھر کو ٹھہر جاتا ہے
سادہ دل اُس کو ’’بیمار ‘‘سمجھ لیتے ہیں
ہم جنھیں ’’ لُوٹ‘‘کر نہیں آنا
کیا ہمیں دیکھنا نہ چاہو گے
’’ہڈ حرامی‘‘ختم ہے اُن پر جو یہ فرماتے ہیں
فرشِ مخمل پہ مرے پائوں چھلے جاتے ہیں
کچھ تو مرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو ’’کھلانے ‘‘کیلئے آ
جیسے ’’آرام ‘‘کرنا کوئی کام ہی نہ ہو
سب پوچھتے ہیں ان دنوں کیا کر رہا ہوں میں
متاعِ جاں بہت سستی تھی لیکن
میں اپنے ’’باپ ‘‘کو مہنگا پڑا ہوں
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ’’بندہ ‘‘تو بن
اگر تو اتفاقاََ ’’کھو‘‘ بھی جائے
تری ’’قربت ‘‘کے صدمے کم نہ ہوں گے
’’شاعری بھی کام ہے آتش مربع ساز کا‘‘
Jan 20, 2021