رانا احتشام ربانی کے نزدیک سیاست عباد ت ہے‘ انسان کی فلاح کو وہ سیاست سمجھتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل ہوں‘ انکے دکھ درد دور ہوں۔ انھیں روزگار اور انصاف ملے۔ صاف پانی ملے، علاج ہو۔ سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل اس قسم کے نعرے لگاتی ہیں، جن کا پرچار رانا احتشام کرتے رہتے ہیںمگر اقتدار کے بعد وہ اپنے منشور کو عملی جامہ نہیں پہنا پاتے۔
رانا احتشام ربانی نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے پیغام کو عام کیے جا رہے ہیں۔ پمفلٹ اورکتابوں کے ذریعے وہ شعور اور دانش کی باتیں کرتے ھیں۔ سچائی کا شعور انسان میں ہو جائے تو بڑی بات ہے۔ رانا احتشام انسانوں کے درمیان محبت کا پیغام دیتے ہیں۔ وہ چھوٹی سی بات میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ یہ اسلوب بڑے بڑے مکالموں سے زیادہ بامعنی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنا ہی اس کی تعبیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ حال ہی میں رانا احتشام ربانی کی تحریر پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی ہے جو ملکی اور عالمی نظام کے حوالے سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی ایک منفی عمل ہے جس کی خلاف ورزی کرنیوالے کو خود ذاتی طور پر یا دوسرے انسانوں کی ذات کو نقصان پہنچتا ہے۔ ریاست کا نظام ٹیکسوں پر چلتا ہے۔ عالمی، سماجی، معاشی نظام طاقتور اور دولت مند طبقات کی ملی بھگت سے چلایا جا رہا ہے۔ طاقتور اپنی طاقت کو قائم رکھنے اور اثرورسوخ بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انکے نزدیک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ دنیامیں ہلاکت خیزی کی سب سے بڑی وجہ، دولت مند طبقہ کو اپنی دولت میں اضافہ کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ غربت میں اضافہ کی وجہ سے اکیسویں صدی کی نوجوان نسل میں شعور کی بلندی پیدا ہو رہی ہے۔ پرانا، فرسودہ، ظالمانہ نظام کا جلد خاتمہ ہو جائیگا۔ عام انسانوں کو بھی زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں برابری کی سطح پر مہیا ہوں گی۔ دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہے۔ سب انسان برابر ہیں۔ کسی بھی انسان کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنا انسانیت کا جرم ہے۔ دنیا کا معاشرتی نظام جبر کے اصول پر قائم ہوا ہے اور تسلسل سے جاری ہے۔ ہر ملک کے آئینی دستور میں ہر شہری کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے وعدے درج ہوتے ہیں لیکن عمل کے لیے مجبوریاں بتا دی جاتی ہیں۔ دنیا کومختلف بنیادوں پر تقسیم کر کے حکومتیں کی جاتی ہیں۔ حکومتی عہدے داران اور دولت مندوں کا پس پردہ سمجھوتا ہوتا ہے۔ دونوں مزے کی زندگی گزارتے ہیں اور عوام محرومیوں کا شکار رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ رانا احتشام اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے نئی نسل کی ذہنی تربیت کر رہے ہیں۔ وہ اقتدار کے بجائے سسٹم کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ انکی تحریریں جذبے اور خلوص سے بھری ہوتی ہیں۔ اکرم کنجاہی نامور ادیب، شاعر اور نقادہیں۔ بسلسلہ ملازمت طویل عرصہ سے کراچی میں مقیم ہیں۔ ان سے دوستی سالوں پر محیط ہے۔ اپنے خطوط میں وہ ذاتی باتوں کے بجائے علمی اور ادبی باتیں لکھتے ہیں۔ میں نے اپنا اردو شعری مجموعہ ’’آنکھ، حسن اور خوشبو‘‘ ارسال کیا تو خط کے ذریعے کتاب کی وصولی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’’حسن کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے جسے قوت شامہ سے نہیں، قوت باصرہ سے محسوس کیا جاتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب کے نام یعنی ’’انکھ، حسن اور خوشبو‘‘ پر غور کیجئے تو کتاب کی معنویت آپ پر واضح ہو جائے گی۔ تنویر ظہور کی اردو شاعری ہو یا پنجابی، ان کے ہاں جمالیاتی فکر و احساس کے ساتھ ساتھ اپنے عہد اور گردوپیش کا شعور و ادراک پایا جاتا ہے۔ جیون کی کٹھنائیاں، سیاسی شعبدہ بازیاں، معاشرتی و سماجی ناہمواریاں سب انکے ہاں بہت بلند آہنگ کے ساتھ موجود ہیں۔ بعض ناقدین انکی شاعرانہ فکر کے سوتے تصوف سے بھی ملاتے ہیں۔ انکے کلام میں فرسودگی نہیں، اسلوب بیان میں تازہ کاری ہے۔ اس خوبصورت کلام کو پڑھ کر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ان کی اردو شاعری کو صحافت کی نظر لگ گئی‘‘ ۔ آخر میں کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے شاعر دوست ظفر رباب کی نظم ’’لیڈر اور ووٹر‘‘ پیش ہے:۔؎
یہ اونچے محل چوبارے تمہارے
ہیں کچرا کنڈیاں مسکن ہمارے
وہ ایون فیلڈ اوریہ جاتی امرے
ہماری بستیاں بھینسوں کے باڑے
بلاول ہاؤس اور یہ بنی گالے
گزر گائیں ہماری گندے نالے
بندھے ہیں جب تلک کھونٹوں سے ان کے
اجالے دیکھ نہ پائیں گے ان کے
٭…٭…٭