2020 کا سال حیرتوں اور پریشانیوں کی سوغات دے کر رخصت ہوا تو لوگوں نے نئے سال سے نئی امیدیں باندھ لیں لیکن دنیا کے روز بروز بدلتے حالات مستقبل کی کوئی اتنی حوصلہ افزا نوید نہیں سنا رہے جس کی مثال حال ہی میں امریکہ کے شہر واشنگٹن جو کہ دنیا کی قدیم ترین جمہوریتوں میں سے ایک ہے وہاں ۶ جنوری کو سابق صدر ٹرمپ کے حامیوںنے اپنے ہی پارلیمنٹ ہائوس پر دھاوا بول دیااور پھردنیا نے ایسا منظر نامہ دیکھا جس نے آنیوالے حالات کا کوئی مثبت تاثر نہیں چھوڑا ۔ اس وقت امریکہ کے دارلحکومت میں جا بجا سڑکوں پہ فوجی گشت ، پارلیمنٹ ہاوس کیپیٹل ہل کے اندر باہر فوج کے پہرے وہاں کی جمہوریت کو داغدار کر رہے ہیں۔ پانچ ہزار فوجیوں سے شروع ہونیوالا حفاظتی حصار اب پچیس ہزار سے زائد فوجیوں تک جا پہنچا ہے اور صدر بائیڈن کے حلف اٹھا نے والے دن یہ تعداد دگنی بھی ہو سکتی ہے ۔ امریکہ کے اپنے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر آنیوالے دنوں کیلئے خبردار کر رہے ہیں ۔ سی این این کے پرانے صحافی اور تجزیہ کار وولف بلٹزر جو کہ امریکہ کے عراق پر حملے کے وقت تالیاں بجانے میں سب سے پیش پیش تھے ان کا کہنا ہے کہ میں نے نیشنل گارڈ کے دستوں کو ایک عام گلی اور کونوں میں دیکھا جو کیپٹل کے قریب بھی نہیں تھا ،بہت ساری گلیوں کو بند کر دیا گیا ہے یہ مجھے جنگی علاقوں کی یاد دلاتا ہے جو میں نے بغداد ، موصل اور فلوجہ میں دیکھے تھے ۔ امریکہ میںآنے والے دن کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور دنیا پہ اپنا کیا اثر چھوڑتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن ساری دنیا میں پھیلی بے یقینی ، کورونا کے بعد کے حالات ، خطے میں ہونے والی نئی صف بندیاں ہمارے لئے بھی ایک امتحان ہیں ۔ عرب دنیا بھی ہوائوں کا رخ بدلتا دیکھ کر اب اپنے لئے نئی راہیں تلاش کر رہی ہے ۔ آنے والے دنوں میں دنیا کا تیل پہ کم ہوتا انحصار عربوں کو بوکھلا رہا ہے ۔
دنیا میں تیل کی پیداوار کے دس بڑے ممالک کی فہرست کو دیکھیں اس میں سے دو دیوالیہ ہیں ایران اوروینزویلا ، ایک عراق تباہ ہوچکا ہے اور سوویت یونین تیس سال قبل کئی ٹکڑوں میں بٹ چکا اور جن عربوں کے پاس تیل ہے بھی انہوں نے بھی اپنی آزادی گروی رکھی ہوئی ہے ۔ امریکہ ، کینیڈا وغیرہ بھی آج اس مقام پہ تیل کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں ترقی اور محنت سے اس مقام پہ پہنچے ہیں ۔ کورونا کے بعد سے دنیا کی معیشتوں کو در پیش چیلنج اور دیگر تمام عوامل ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اگر اب بھی ہم نے خود کو نہ سنبھالا ، اپنے اوپر انحصار کرنا نہ سیکھا تو آنے والا وقت کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ۔
پاکستان جیسا ملک جس کو اللہ تعالی نے دنیا جہاں کی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے کیا وجہ ہے کہ ہم آج بھی نگر نگر جھولی پھیلائے ہر اس ملک کو آس سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے کسی ما لی امداد کی امید ہو ۔ ہمارے پاس تیل نہیں ہے مگر گنے کی پیداوار میں دنیا میں پانچواں نمبر ہے لیکن کیا ہمارے ہاں لوگوں کو سستی چینی دستیاب ہے ؟ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے لیکن گندم کی کاشت میں دنیا میں آٹھواں نمبر ہے ، کیا اس ملک کا ہر بچہ جوان بوڑھا پیٹ بھر کے کھاتاہے ؟ ہمارے پاس بیچنے کے لئے ہتھیار نہیں ہیں مگر چاول کی پیداوار میں دسویں نمبر پر ہیں ، کیا عام شہری کو بہترین چاول کھانے کے لئے میسر ہے ؟ ہمارے پاس سونے کے بڑے بڑے ذخائر نہیں ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہیں ، کیا اس وطن کے ہر شہری کا بدن سخت ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں گرم کپڑوں سے ڈھکا ہوا ہے ؟ اگر آپ کے پاس ان تمام سوالوں کا جواب منفی ہے تو پھرجتنے بھی آپ دنیا میں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک جیسے سہارے تلاش کر لیں یا پھر باہر کے ممالک سے بھیک مانگتے رہیں یا جو مرضی وسائل اللہ تعالی اس ملک کو عطا کر دے یہاں کے عام آدمی کی زندگی کو آسان نہیں کر پائیں گے ۔ اس ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ ساٹھ ، ستر گھرانے جو آپ کی اشرافیہ کہلاتی ہے یا پھر بڑے اداروں کے کرتا دھرتا لوگ ہی ان تمام وسائل کو اپنا حق سمجھ کر یوں براجمان بیٹھے ہیں کہ ایک عام آدمی تک ان کے ثمرات پہنچ ہی نہیں پاتے اور ملک کا یہ حال ہے کہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا تو دور کی بات بیساکھیوں کے سہارے چلنا بھی دشوار ہے اور اب آنے والے وقت میں جب دنیا کے لئے اپنے حالات ہی سنوارنا مشکل ہیں ایسے میں کوئی ہماری مدد کو آگے نہیں آئے گا ۔ بلوچستان جیسا آپ کا صوبہ ملک بھر کو گیس فراہم کرنے والا ، سونے اور تانبے کے ذخائر رکھنے والا اور اب گوادر سے چین تک تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداری سی پیک کا حصہ دار بھی لیکن یہاں کے لو گوں کی حالت عام صوبوں سے بھی بد تر ، سندھ کی طرف نظر دوڑائیے کراچی پورے ملک کو سہارا دینے والا اور سندھ کے اندر غربت کا یہ عالم کہ تھر کے بچے فاقہ کشی سے مریں، جنوبی پنجاب سب سے زیادہ غذائی اجناس رکھنے والا اور یہاں کے کسان کی بد حالی کا یہ عالم کہ لوگوں کے پیروں میں جوتے نہیں ، تن کو ڈھانپنے کے لئے کپڑے نہیں ۔ وسائل کی غیر منصافانہ تقسیم، غریبوں اور امیروں کے لئے الگ الگ انصاف کا معیار، اس ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
دنیا میں مستقبل قریب کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ، کورونا کی وبا سے چھٹکارا آخر کب تک ممکن ہو پائے گا ، امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کیا بہتر انداز سے ہو پائے گی یا جو جمہوریت کے نام پہ یہاں تماش بینی ہوتی رہی ہے وہ اب سپر پاور کے ہاں بھی دیکھنے کو ملے گی ؟ عرب ملک اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ کیا دنیا کا منظر نامہ بدل پائے گاان سب سوالوں کا جواب تو آنے والا وقت دیگا، ہمارے لئے اس وقت سب سے ضروری یہ امر ہے کہ ہم اپنی معیشت پہ بھرپور توجہ دیں تاکہ بیرونی دنیا پہ انحصار کم سے کم ہو سکے کیونکہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہو کر ہی ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو سکتے ہیں۔