بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
حیدر علی آتش کے بیان کردہ دکھڑے پر ایک نظر ڈالیں تو موصوف کی معصومیت پر ترس کھانے کے علاوہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ موصوف یا تو بہت بھولے تھے یا پھر وقت کی ستم گریوں سے بالکل نابلد کیونکہ کون نہیں جانتا کہ جن دلوں میں نفرتوں کے بسیرے ہوں جن دلوں میں منافقت کے بیجوں کی آبیاری کی جا رہی ہو جن دلوں کے دریچوں اور بالکونیوں میں ہوس کے بْت سجائے جاتے ہوں وہاں خْون کا کیا نشان کیا کام اور کیا مقام۔
اسی غم کو لیئے جاڑے کے اس موسم میں نہ جانے کیوں آج بے حسی کی چادر اوڑھ کر سرِشام ہی سو جانا چاہتا تھا لیکن صاحب دل لوگوں کے بقول جاڑے کی اداس شاموں اور بیرنگ راتوں کا ایک ستم یہ بھی ہوتا ہے کہ ان لمبی راتوں میں یادوں کی چنگاریاں سْلگتے سْلگتے ایسے آگ پکڑتی ہیں کہ وہ انسان کی لاکھ کوششوں کے باوجود اسکے اندر ایسا ’’پامبڑ‘‘ لگاتی ہیں کہ اسکے دْکھ اسکے غم اسے دیوانگی کی حدوں تک لے جاتے ہیں اور پھر وہ ایسے ایسے سچ بولتا ہے اور اسکی زبان سے ایسے کلمات ادا ہوتے ہیں جو وقت کے فرعونوں کے ایوانوں میں آگ لگا دیتے ہیں۔ میںیہ تو نہیں کہونگا کہ اپنے اندر کی آگ بھی آج کچھ اس قسم کا کرشمہ دکھانے چلی ہے کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس قسم کی کرشمہ سازی کیلیئے انسان کی اپنی ذات دنیاوی آلائشوں سے پاک ہونی چاہیئے جسکا دعویٰ بہرحال یہ گناہگار نہیں کر سکتا لیکن اس محرومی کے باوجود راقم کی اخلاقی جرأت اسے اس بات پر مشتعل کر رہی ہے کہ پچھلے دنوں اپنے کچھ سیاسی زعمائ کے ان اونچے بولوں جو کہ صرف اللہ تعالی کی ذات کو ہی زیب دیتے ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کے کچھ ایسے واقعات اور بیانات دہرائے اور وقت کے فرعونوں کو باور کرائے …؎
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا۔
اس سباق یادِ ماضی 1977ء کے دریچوں میں لے جاتی ہے جب پی این اے کی احتجاجی تحریک کے دوران اس وقت کا مضبوط ترین اور طاقتور ترین وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو ٹیلی وڑن پر تقریر کرتے ہوئے اس کرسی پر جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے اسکے بازو پر غصے میں ہاتھ مارتے ہوئے کہتا ہے کہ ‘‘یہ کرسی بہت مضبوط ہے۔ زمینی حقائق یاد دلاتے ہیں واقعتاً کرسی بہت مضبوط ثابت ہوئی اور آج تک سلامت ہے لیکن اس پر بیٹھ کر دعویٰ کرنے والا کچھ دنوں کا مہمان ثابت ہوا۔پاکستان کی تاریخ میں ایسا دعویٰ کرنے والا وہی ایک واحد شخص نہیں تھا اس سے بڑھ کر کندھوں پر پھول سجائے ایک اور بھی شخص تھا جس نے کہا تھا کہ یہ آئین کیا چیز ہے چار صفحات پر مشتمل کاغذ کا ایک ٹکڑا جب چاہوں پھاڑ کر ہوا میں لہرا دوں انجام آپ سب کے سامنے اپنا جسم ہی کاغذ کے پرزوں کی طرح ہواؤں کی نذر کر بیٹھا۔
اسی طرح کا ایک اور آمر بھی پاکستان کی تقدیر کا مالک بن بیٹھا تھا اور سینے پر میڈل سجائے اور ہواؤں میں مکے لہراتے لوگوں کو ملک میں آنے کا چیلنج کرتا ہوتا تھا اور آج جب ان گنہگار آنکھوں نے وہ سین بھی دیکھا جب اس حقیقت کے باوجود کہ آج بھی اس شخص کی پْشت پر ایک پوری طاقت کھڑی ہے پھر بھی مکافات عمل نے اسے اس بات پر مجبور کر دیا کہ اسے اپنی ماں کی تدفین بھی دیار غیر میں کرنی پڑ گئی تو پھر اسکے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘کتنا ہے بد نصیب ظفردفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں’’۔
افسوس تو اس بات کا ہوتا ہے کہ آمرانہ مزاج کے بندے تو ایسی بولیاں بول جاتے ہیں لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب شہنشاہ مفاہمت کہلانے اور دھیمے مزاج رکھنے والے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا دل رکھا ہی نہیں جو غصہ کرے جب وہ بھی کسی صحافی کے سوال کے جواب میں یہ کہہ دے کہ چیئرمین نیب کی کیا مجال مجھے طلب کرے میں تو اس حکومت کو چیلنج کر رہا ہوں کہ کل دن اسے بھی میرے پیروں پر اسی طرح گرنا پڑ جائے جیسے۔۔۔ اور آج جب اس شخص کو بیساکھیوں کے سہارے اْنہی احتساب عدالتوں میں جاتا دیکھتا ہوں تو پھر خْدا یاد آ جاتا ہے اور یہی کہہ اْٹھتا ہوں! ‘‘یہ وقت ، کِس کی رَعْونت پہ خاک ڈال گیا ؟؟ یہ کون بول رہا تھا ، خْدا کے لہجے میں ؟؟
ان تمام باتوں کو بیان کرنے کا میرا یہ مدعا ہر گز نہیں کہ میں کسی کی تذلیل کرنا یا نیچا دکھانا چاہتا ہوں۔ میرا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہیئے اور ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے جو مستقبل میں آپکو بھی عبرت کا نشان بنا دیں اب اسکی تازہ مثال ہی دیکھ لیں پچھلے ہفتے سانحہ مچھ پر کسی ایسی سیاسی شخصیت جو کہ اس وقت انتہائی ذمدار پوزیشن پر جلوہ افروز ہے کی طرف سے کچھ ایسا ردِعمل اور ایک ایسا بیان سامنے آیا جس نے ایک نیا پنڈورہ باکس کھول دیا۔ یار لوگوں کی طرف سے اس بیان کی نشتر زنی سے بننے والے زخموں پر خوب نمک پاشی بھی دیکھنے کو ملی لیکن راقم اس پر اپنی تبصرہ گوئی یا حاشیہ آرائی سے کوئی ایسا منظر نامہ پیش کرنا نہیں چاہتا جس سے پہلے سے پراگندہ سیاسی کشیدگی جس میں آنے والے دنوں میں مزید ابتری کے امکانات پائے جاتے ہیں پر لوگوں کے دلوں میں مزید خدشات پیدا ہوں۔ راقم اس سباق صرف اتنی عرض کرنا چاہے گا اور خود پرستی کے تراشے بْتوں سے جو عوامی مزاج کے خلاف ایسے بیان داغتے ہیں اْن سے صرف ایک ہی سوال کرے گا ۔کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا۔
وقت کے فرعونوں سے ایک ہی سوال
Jan 20, 2021