نواز شریف کا دور تھا،حاجی نواز کھوکھر اندر تھے ،ان کے کیسوں کی پیروی کرنے کے لئے ان کی بیگم صاحبہ لاہور تشریف لے آئیں ۔ وہ میرے گھر مصطفی ٹائون میں نہیں ٹھہریں بلکہ قریب ہی مسلم ٹائون میں ٹھہریں اور میں نے ان کے ڈرائیور کے فرائض سنبھال لئے۔ ایک شام وہ مجھے کسی جج صاحب کے گھر لے گئیں۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ اگلی صبح حاجی صاحب کی ضمانت کی سماعت ہے، اس میں مدد فرمائیں،جج صاحب نے پوچھا کیس کس کے پاس ہے۔ بیگم صاحبہ نے سادگی سے کہا کہ آپ کے پاس۔
جج صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ کہنے لگے میرے پاس ہی کیس اور مجھ ہی سے سفارش۔ میں ابھی آپ کو اندر کرواتا ہوں، میں نے ماحول کی تلخی کم کرنے کے لئے کہا کہ جج صاحب میں محض ڈرائیور ہوں،مجھے معاف رکھیئے گا۔بات آئی گئی ہو گئی اور اگلے روز حاجی صاحب ضمانت پر رہا ہو گئے۔یہ ڈرامائی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی ،مارشل لاء لگا تو حاجی صاحب نے پھر گرفتاری دے دی اور میں نے ایک اور خطرے میں چھلانگ لگا دی۔
مشرف کے مارشل لاء نے اعلان کیا تھا کہ وہ مگر مچھوں کا احتساب کرے گا ۔ مارشل لاء کے اگلے روز بی بی سی اردو کے صفحے پر شہہ سرخی تھی کہ مگر مچھ پکڑ لیے گئے اور اس میں ایک تصویر تھی حاجی نواز کھوکھر سینہ پھلا کر پولیس سے ہتھکڑیاں لگوا رہے تھے، پتہ چلا کہ تمام مگر مچھوں کو تھانہ سرور روڈ لاہور کینٹ میں لاکر بند کر دیا گیا ہے۔ میں دوپہر کا کھانا لے کر تھانے پہنچ گیا ، حاجی صاحب کو حوالات کے کمرے سے نکلوایا اور تھانیدار کے کمرے میں بیٹھ کر ہم کھانا کھانے لگے۔ حوالات کا چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں دس بارہ گدے بچھے ہوئے تھے اور ایک کونے میں کھلا واش روم ۔ نیرنگی دوراں پر میں حیرت زدہ رہ گیا ، پاکستان کے چوٹی کے لوگ وہاں دراز تھے ْ۔ہم لوگ کھانا کھا رہے تھے ،ہمارے ساتھ حاجی نواز کھوکھر کے علاوہ ان کی بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں ۔ اچانک ہمارا دروازہ کھلا اور کسی شخص نے جھانک کر کہا کہ خبر دار کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ تھانے کا چارج کسی کپتان نے سنبھال لیا ہے اور اسے مخبری ہوئی ہے کہ یہاں کوئی صحافی گھس آیا ہے۔ حاجی نواز جو اپنی بیگم صاحبہ کے پہلو میں بیٹھے تھے وہ اٹھ کر دوسری کرسی پر چلے گئے اور میں بھابھی صاحبہ کے ساتھ بیٹھ گیا ،کوئی بھی دیکھتا تو اسے یہ لگتا کہ یہ ایک فیملی لنچ ہورہا ہے ، بہر حال کپتان صاحب آئے اور وہ الٹے پائوں واپس چلے گئے۔
حاجی صاحب کی طرح آزمائشوں نے وقفے وقفے سے میرا بھی تعاقب جاری رکھا ۔ایسے ہی بے روزگاری کے ایک وقفے میں ، میں حاجی صاحب کے پاس پہنچا اور اپنا دکھڑا سنایا ،انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا، تھوڑی دیر بعد ہم ملک ریاض کے گھر کے لائونج میں پہنچ گئے ۔ ملک صاحب دھوتی پہنے بیٹھے تھے اور مختلف فائلوں پر نظر دوڑا رہے تھے ۔ ان کے سامنے کالے اور گورے اور برائون سب ہی سوٹڈ بوٹڈ بڑے ادب سے ملک صاحب کے احکامات سن رہے تھے، چند منٹ یہ سلسلہ جاری رہا پھر ہم لوگ ناشتے کی میز پر بیٹھ گئے، وہیں حاجی صاحب نے میری بے روز گاری کا قصہ چھیڑا ،ملک صاحب نے حاجی نواز کھوکھر سے کہا کہ یہ آپ کے بھائی ہیں اور آپ میرے بھائی ان کا مسئلہ ابھی حل کر دیتے ہیں ،میں ایک اخبار نکالنا چاہتا ہوں جس کے یہ ایڈیٹر ہوں گے،میں نے تنخواہ پوچھی انہوں نے جو رقم بتائی میں نے کہا کہ اس میں تو اسلام آباد میں کوئی مکان کرائے پر بھی نہیں لے سکتا کجا یہ کہ پوری فیملی کو پال سکوں ۔ حاجی صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا چھوڑیں جی باریکیوں میں مت جائیں ملک ریاض صاحب کے پاس مکانوں کی کوئی کمی نہیں آپ نے یہ کرائے کی کیا بات کردی ، ناشتہ ختم ہوگیا اور میں اس پیش کش کو بھول کر واپس لاہور چلا آگیا ۔
لاہور میں مجھے کسی نے بتایا کہ ملک ریاض صاحب میاں طاہر جاوید کی ڈیفنس سے ملحقہ ایک ہائوسنگ اسکیم کا افتتاح کرنے آرہے ہیں، میں اس خیال سے وہاں چلا گیا کہ ملک صاحب سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور شاید وہ اپنی پیش کش کا بھی دوبارہ ذکر کریں، ملک صاحب نے ہائوسنگ اسکیم کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے تقریریں شروع ہوگئیں،پہلے تو میاں طاہر جاوید بولے۔ انہوں نے سوسائٹی مالکان کے سنگین مسائل کی طرف توجہ دلائی۔
مہمان خصوصی کے طور پر ملک ریاض تقریر کے لیے اٹھے اور انہوں نے تمام مسائل کو باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے حل کرنے کا وعدہ کیا۔جلسہ ختم ہوا ، ملک صاحب اسٹیج سے اتر کر میری طرف بڑھے، مصافحہ کیا اور چلے گئے ۔
حاجی صاحب پر کالموں کے سلسلے کا اختتام کرتے ہوئے میں ملک ریاض کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ بھی ایک طاقتور بازو سے محروم ہوگئے ہیں، میں ملک ریاض سے اس سانحے پر تعزیت کر رہا ہوں۔ ملک ریاض دیکھنے کو ایک سادہ انسان ہیں مگر وہ ایسے مشکل کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور پلک جھپکنے میںانہیں سلجھا دیتے ہیں ۔ ،حاجی نواز کھوکھر کے ساتھ ان کی جو جوڑی سجتی تھی اس جوڑی نے برسوں سے ملک کی لگام اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی ۔ ملک ریاض اور حاجی نواز دو قالب اوریک جان تھے ۔ دوسری طرف مصطفی کھوکھر لائیک فادر لائیک سن کی حیثیت رکھتا ہے۔اللہ کرے کہ ملک ریاض اور مصطفی نواز کھوکھر جوڑی بن کر سامنے آئیں اور ایسا معجزہ کر دکھائیں کہ ملک جس بند گلی میں گھر چکا ہے اس سے باہر نکل سکے ۔میں نے اپنے اگلے کالم کے موضوع کا اشارہ دے دیا ہے۔
٭…٭…٭