خبر کچھ یوں ہے کہ حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے چیئرمین ذوالقرنین خان کو عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ یہ خبر حکومت کی کمزور فیصلہ سازی کا ماتم کر رہی ہے۔ ایک ایسا شخص جو بیماری کے باعث کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا ایک ایسا شخص جسے بیماری نے کہیں کا نہیں چھوڑا بستر پر پڑے اس شخص کو برطرف کر کے حکومت نے کیا بڑی فتح حاصل کی ہے۔ سیکرٹری انڈسٹریز کو عارضی طور پر بورڈ کاچیئرمین تعینات کر دیا گیا ہے وہ کم از کم تین مہینے یا نئے چیئرمین کی تعیناتی تک کام کریں گے۔ ذوالقرنین خان کی برطرفی کے ساتھ ساتھ کابینہ ڈویڑن کی منظوری کے بعد یوٹییلیٹی اسٹورز بورڈ تحلیل کر کے نیا یوٹیلیٹی اسٹورز بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ اس عارضی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سیکرٹری صنعت و پیداوار، جوائنٹ سیکرٹری صنعت وپیداوار، جوائنٹ سیکرٹری فنانس، ڈی جی بی ائی ایس پی، ایم ڈی یوٹیلیٹی اسٹورز اور ڈی جی ایف ائی اے بھی شامل ہیں۔
اب یہ خبر لوگوں کے لیے معمول کی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن میرے لیے یہ خبر کسی بڑی تباہی سے کم نہیں کیونکہ ایک شخص جب آزاد تھا، چلتا پھرتا تھا، کارروائیاں کر سکتا تھا اسے کسی نے نہیں ہوچھا اور جب وہ بے کار ہوا ہے اسے عہدے سے ہٹا کر نجانے کیا حاصل کر لیا ہے۔
کاش وزیراعظم عمران خان نے یہ ایکشن چند ماہ قبل کر لیتے تو یوٹیلیٹی اسٹورز میں ہونے والی کرپشن رک جاتی، کاش وزیراعظم عمران خان اس ادارے کو بچانے کے لیے بروقت اقدامات کرتے تو قوم کے اربوں روپے غریبوں کے کام آ جاتے، کاش وزیراعظم عمران خان بروقت کارروائی کرتے تو یوٹیلیٹی اسٹورز کو عوامی فلاح کا ادارہ بنایا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ایک شخص کو اس کے غلط اور مشکوک فیصلوں اور مفادات کے واضح تصادم کے باوجود ناصرف کام کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ اسے کھلی چھٹی دے دی گئی۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جب لاہور میں رہ کر میرے جیسا عام شخص معاملات کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے، جانچ پڑتال کر سکتا ہے، دو نمبریوں کو پکڑ سکتا ہے تو وزیراعظم پاکستان کیسے باخبر رہ سکتے ہیں، وہ کیسے باخبر رہ سکتے ہیں کہ ایک سرکاری ادارے کا چیئرمین عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنا ہی کاروبار شروع کر دے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے، اسے ملکی بھگت کہا جائے یا این آر او کا نام دیا جایے، خدمات کے صلے میں ملکی خزانے سے کھیلنے کی خاص اجازت کا نام دیا جائے اسے کچھ بھی کہا جائے کسی انکوائری میں ثابت ہو یا نہ ہو اس ملک کا نظام احتساب یہ ثابت کر سکے یا نہ کر سکے یہ حقیقت ہے کہ بالخصوص گذشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران یوٹیلیٹی اسٹورز میں ملک و قوم کا بڑا سرمایہ ضائع ہوا ہے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ انہی صفحات پر گذشتہ برس رمضان المبارک سے قبل یوٹیلیٹی اسٹورز میں چیئرمین ذوالقرنین خان کی مبینہ بدعنوانیوں پر لکھا گیا تھا جب انہوں نے امپورٹڈ کھجوروں کا ٹینڈر جاری کیا، کھجوروں کی پیکنگ کی ایک خاص قسم کو ٹینڈر میں شامل کیا یا اس کے بعد بھی یوٹیلیٹی اسٹورز کے چیئرمین دیگر معاملات میں مبینہ طور پر ملوث رہے یہ سب چیزیں ریکارڈ پر ہیں، یہ سب چیزیں چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ انہی صفحات کے ذریعے وزیراعظم عمران خان تک یہ آواز پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی حقائق ان کے سامنے رکھے گئے تھے، انہیں یہ خبر پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے چیئرمین اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور ان کی طرف اے اختیارات کے غلط استعمال سے ناصرف خزانے کو نقصان پہنچے گا بلکہ وزیراعظم عمران خان کی ساکھ بھی خراب ہونے کا خطرہ موجود رہے گا کیونکہ سیاسی حلقوں میں یہ بات کی جاتی ہے کہ ذوالقرنین خان کا شمار وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز میں بدانتظامی و بدعنوانیوں کی تاریخ رقم ہوتی رہی اور حکومت سوتی رہی۔ میرے کالم وزیراعظم عمران خان تک پہنچائے نہیں گئے یا انہوں نے دیکھنا مناسب نہیں سمجھا یا ان کی میڈیا ٹیم نے تفصیلات وزیراعظم تک نہیں پہنچائیں یا ان کی وزارت اطلاعات کو یہ خبر ہی نہیں کہ اخبارات کے ذریعے کن اہم مسائل کی نشاندہی کی جا رہی ہے یا حکومت کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو براہ راست غریب عوام کے لیے سہولت پیدا کر سکتا ہے اس کا چیئرمین عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا رہا اور کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ میرے ملک کا خزانہ میرے سامنے لٹتا رہا ہے، غریب بھوک سے مرتا رہا ہے، بچے بلکتے رہے ہیں لیکن میرے ملک کے حکمرانوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کی ہے۔ ذوالقرنین خان یوٹیلیٹی اسٹورز کے سربراہ کی حیثیت سے کاروبار کرتے رہے اور وہی کاروبار کرتے رہے جس کا براہ راست یوٹیلیٹی اسٹورز سے تعلق تھا وہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر امپورٹڈ کھجوروں کے ٹینڈر جاری کرتے رہے، میں نے ثبوت پیش کیے، حقائق بیان کیے اس کے باوجود قوم کے وسائل لٹاتے رہے لیکن انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا، انہیں برطرف بھی اس وقت کیا گیا ہے جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اسٹنٹ ڈلوائے ان میں بھی خرابی پیدا ہو گئی، صحت مزید خراب ہوئی لوٹ مار کے قابل نہ رہے تو برطرفی کر کے کریڈٹ لینے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ کاش یہ برطرفی سات آٹھ ماہ قبل ہوتی تو شاید ملک و قوم کا بھلا ہو جاتا لیکن ایسا نہ ہوا اللہ کا قانون حرکت میں آیا لوٹ مار کرنے والا بیمار ہوا تو اسے باامر مجبوری عہدے سے ہٹانا پڑا ہے۔ میرے پاس سابق چیئرمین یوٹیلیٹی اسٹورز ذوالقرنین خان کی ہسپتال سے ایک تصویر پہنچی ہے یہ تصویر دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ انسان کتنا ہی پیسہ کیوں نہ کما لے، کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو جائے، کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو جائے، حکمرانوں کے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو جائے، کتنا ہی بڑا کاروبار کیوں نہ کر لے، کتنی ہی بڑی تعداد میں کمپنیوں کا حصہ دار نہ بن جائے وہ اپنی ساری دولت دے کر بھی صحت خرید نہیں سکتا۔ دنیا کا کوئی ڈاکٹر کوئی دوائی یہ ضمانت نہیں دے سکتی کہ بیماری ختم ہو جائے گی، بیہوشی میں ہسپتال آنے والا اپنے پاؤں پر چل کر واپس جانے گا۔ کوئی ڈاکٹر، کوئی دوائی، کوئی طاقت، کوئی اختیار یہ ضمانت دینے کی اہلیت نہیں رکھتا یہ طاقت صرف خالق کائنات کے پاس ہے اور جب کوئی مخلوق کا حق کھاتا رہے کہیں نہ کہیں تو وہ پکڑ میں آئے گا۔ ذوالقرنین خان کی ہسپتال سے ملنے والی تصویر یہ پیغام ہے کہ اللہ سے ڈریں، اللہ سے ڈریں، اللہ کے بندوں کا خیال رکھیں، اللہ کے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، اللہ کے بندوں کا حق مت کھائیں، ناجائز اور غلط طریقے سے دولت اکٹھی نہ کریں، دولت آپ کے پاس امانت یے اسے تقسیم کریں۔ کاش حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز انتظامیہ کی بدعنوانیوں پر بروقت کارروائی کرتی تو خزانہ بچ جاتا اب اس بیمار کو عہدے سے برطرف کر کے کیا ملنا ہے۔
مجھے آج بھی یقین ہے کہ وزیراعظم عمران خان کرپشن کے خلاف ہیں وہ اس پر کوئی سمجھوتا نیں کرتے نہ وہ خود کسی قسم کی مالی بدعنوانی کا حصہ ہیں نہ وہ کسی کو لوٹ مار کرتا دیکھ کر اسے کھلی چھوٹ دیتے ہیں نہ وہ ایسے افراد کے ساتھ چلتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر ان کے دور حکومت میں انہی کے قریبی افراد ناجائز ذرائع سے مال بنانا شروع کریں گے تو لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ کہیں صلاحیت پر سوال ہو گا، کہیں تعیناتی مشکوک بنائی جائے گی، کہیں تعلقات کو غلط انداز میں دیکھا جائے گا، کہیں ماضی کے واقعات کو بنیاد بنایا جائے گا، کہیں پرانی خدمات کے صلے کا حوالہ دیا جائے گا۔ جب وزیراعظم کے قربی افراد اختیارات کا ناجائز استعمال کریں گے تو لوگ ویسے ہی بیانات دیں گے جیسے عمران خان ماضی میں شریف برادران اور آصف علی زرداری بارے دیتے رہے ہیں۔ ذوالقرنین خان چونکہ وزیراعظم کے قربی سمجھے جاتے ہیں اس لیے ان کے حوالے سے گفتگو زیادہ ہو گی کیونکہ ذوالقرنین خان برسوں سے سعودی عرب میں شوکت خانم کے کیے فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں اور یہ وہ واحد شخص ہیں جن کے نام سے سعودی عرب میں اکٹھے ہونے والے فنڈر ان کے اکاؤنٹ سے پاکستان منتقل ہوتے ہیں۔ انہوں نے وہاں بھی ان فنڈز کے لیے کوئی شفاف اور قانونی راستہ اختیار نہیں کیا یا ان فنڈز کا ریکارڈ اس شفاف انداز میں مرتب نہیں کیا جس کی ضرورت عمومی طور پر ایسے کاموں میں ضرورت ہوتی ہے۔ میں ان فنڈز کے بارے میں تو کوئی غلط رائے نہیں رکھتا لیکن اگر کوئی شخص یوٹیلیٹی اسٹورز میں لوٹ مار کر سکتا ہے تو وزیراعظم عمران خان کو سعودی عرب میں اس کے ذریعے اکٹھے ہونے والے عطیات پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ یہ بات تو طے ہے ذوالقرنین خان اب صادق و امین نہیں رہے۔ ان کی وجہ سے قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ مجھے شدید دکھ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز جیسا ادارہ جہاں سے غریبوں کا بھلا ہو سکتا ہے بیرحم سیاست دان اسے بھی کاروبار اور مال بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو تباہ کرے جو اس ملک کے غریب عوام کا حق کھاتے اور ان کا خون چوستے ہیں۔
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے الیکشن کمشن کے باہر احتجاج کیا ہے یہ احتجاج کرتے ہوئے کچھ قائدین یہ بھول گئے کہ ان کی حکومتیں ایک سٹے آرڈر پر چلتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے الیکشن کمشن آف پاکستان پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ یہ ملکی سیاست میں ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ ہے کیونکہ اس انداز میں اداروں پر حملہ آور ہونا یا انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرنا اچھا شگون نہیں ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن رویے اور فیصلہ ہمیشہ دیر تک اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی جماعت کو اقتدار کے مزے نہیں بھول رہے۔ ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے رہتے ہیں اسی طرح مسترد فضل الرحمن جو کہ سیاست دانوں کے مفتی قوی ہیں انہیں بھی اسلام آباد کے مزے نہیں بھولتے یہاں کے سرد موسم میں گرم حلوے کی مولانا کو اتنی عادت ہو چکی ہے کہ وہ اپنے قافلے کے ساتھ یہاں صرف حلوے کا شوق پورا کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ میاں شہاز شریف قید میں اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں
۔ مظاہرے تو حکومت کے خلاف ہو رہے ہیں لیکن ان سب نے مل کر جو ظلم اس ملک اور اس کے غریب عوام کے ساتھ کیا ہے اگر اس ملک کا نظام احتساب انصاف نہیں کر سکتا تو پھر ذوالقرنین خان کے انجام کو یاد رکھیں اچھے بھلے سٹنٹ ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد نہیں پہنچے مجھے یقین ہے وہ ہر اہم موقع پر کسی اور جگہ سیاسی طور پر مصروف ہوں گے۔ وہ ہر اس جگہ احتجاج میں شریک ہوں گے جہاں انہیں مناسب لگے گا ورنہ یہ سارا سیاسی تماشا حلوے کے شوقین اور خزانہ لوٹنے والوں نے ہی کرنا ہے۔