اسلام آباد: الیکشن کمیشن پاکستان نے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے میں تاخیر کی وجوہات بتا دی ہیں۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ کورونا وبا، وکلا کی غیر حاضری اور اسکروٹنی کمیٹی ممبرکی ریٹائرمنٹ تاخیر کی وجہ بنی۔
حکام کا کہنا ہے کہ کیس پر موجودہ الیکشن کمیشن نے خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ ہم اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ بغیر کسی دباؤ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے پرعزم ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آزادانہ اورشفاف انتخابات کےانعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہروقت تیار ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسکروٹنی کمیٹی کو ہفتے میں کم از کم تین روز اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خیال رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف مبینہ طور ممنوعہ ذرائع سے غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا کیس چھ سال سے زیرالتوا ہے۔
مذکورہ کیس تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں الیکشن کمیشن کے میں لے کر گئے تھے۔
درخواست گزار کا الزام ہے کہ پی ٹی آئی نے بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان کی جاعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے اور حاصل ہونے والے فنڈز کے دستاویزات موجود ہیں۔
پی ٹی آئی نے چھ باراسلام آباد ہائی کورٹ درخواست دی کہ اور مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں۔
موجودہ حکمراں جماعت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے معاملے کی جانچ پڑتال کیلئے بنائی گئی اسکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر کسی جماعت پر ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کے ثبوت مل جائیں تو الیکشن کمیشن اس وقت کی حکومت کو اس جماعت کے خلاف ریفرنس بھیجے گا جس پر عمل درآمد کرنا حکومت وقت کے لیے لازم ہو گا۔
الیکشن کمیشن اس سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو لکھے گا اور وفاقی حکومت 15 روز میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھییجے گی۔
اگر سپریم کورٹ ریفرنس کو درست مانتی ہے تو ایسی صورت میں سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی۔ سیاسی جماعت ختم ہونے کی صورت میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ ارکان صوبائی اسمبلی اور کے نمائندے بھی نااہل ہو جائیں گے۔