چوہدری شاہداجمل
chohdary2005@gmail.com
ملک میں صدارتی نظام کے بارے میں بحث جاری ہے،خاص طور پر عوام تک فوری رسائی کا ذریعہ ’’سوشل میڈیا‘‘اس حوالے سے استعمال ہو رہا ہے،یہ بحث کوئی نئی نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ یہ بحث ’’ایسے ہی‘‘شروع نہیں ہو گئی،اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور ہے کہ معاملات کو کسی خاص سمت میں لے جانے کے لیے اس بحث کو چھیڑا گیا ہے،اس کے حق اور مخالفت میں دلائل دیئے جا رہے ہیں کہ ملک کے اندر پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی نظام حکومت ہونا چاہیے جس میں ملک کا صدر ملک کی بہتری کے لیے اپنے طور پر اقدامات کرنے کے لیے بااختیار ہوتا ہے اور اسے پارلیمانی اکثریت کی محتاجی نہیں ہوتی۔ماضی میں دیکھاجائے توپاکستان میں اس طرح کی بحث کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب پارلیمانی نظام غیر فعال ہو یا ’’ڈیلیور‘‘نہ کر پا رہا ہو،ملک مہنگائی اور بے روزگاری کی اس لہر میں عوام اور خاص طور پر نوجوان طبقہ اس بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اگر موجودہ نظام نے عوام کی توقعات کو پورا نہ کیا تو صدارتی نظام کے بارے میں جاری یہ بحث اس سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط آواز بھی بن سکتی ہے،موجودہ حالات میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا یہ بیان کہ ’’موجودہ حالات میں حکومت کا گھر جانا ہفتوں، مہینوں نہیں چند دنوں کی بات نظر آرہی ہے‘‘ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ ماہ حکومت کے خلاف کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے جبکہ حکومت مخالف سیاسی اتحادپی ڈی ایم نے مارچ کے مہینے میں 23مارچ کو اپنا لانگ مارچ اسلام آباد لا نے کا اعلان کیا ہے،مہنگائی کی لہر کی وجہ سے حکومت خاصے دباؤ میں ہے اور بظاہر مہنگائی کنٹرول ہو تی نظر نہیں آتی،ملک میں کوروناکی لہر ایک بار پھر سر اٹھاتی نظر آہی ہے،کیونکہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق پاکستان میں یومیہ کورونا کیسز کی تعداد چار ماہ بعد 5 ہزار سے تجاوز کر گئی۔کراچی میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ 38.79 فیصد تک جاپہنچی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے چار رہنماؤں کی مبینہ ملاقاتوں کے حوالے وفاقی وزیر کے بیان کے بعد مسلم لیگ(ن)کی طرف وضاحتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسے ملک کے حالات سے توجہ ہٹانے اور میڈیا کو الجھانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے،حکمران جماعت نے نوا ز شریف کو لندن سے واپس لانے کیلئے دو مختلف ٹریکس پر عملی کام شروع کر دیا ہے،ایک طرف برطانیہ سے ملزموں کے تبادلے کے معاہدے پر سرتوڑ کوشش کر رہی ہے جو آخری مرحلے میں بتائی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت سے نواز شریف کی بیماری کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے،ڈاکٹروں کی یہ رپورٹ شہباز شریف جو نواز شریف کے ضامن ہیں،کی نااہلی کیلئے استعمال کی جائے گی،ہائی کورٹ میں موقف اختیار کیا جائے گا کہ شہباز شریف کی طر ف سے پیش کئے گئے ضمانت نامہ کے مندرجات غلط تھے، اپنے بھائی کی واپسی کیلئے دو ہفتے کا جو وقت لیا تھا وہ اس میں انہیں واپس لانے میں ناکام رہے۔پاکستان اور برطانیہ نے سزا یافتہ شہریوں اور مجرموں کی واپسی کے معاہدے پر جلد دستخط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیرداخلہ شیخ رشید احمد اور برطانیہ کے ہائی کمشنر کرسچیئن ٹرنر کے درمیان ملاقات میں فریقین نے کہاکہ یہ معاہدے دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں جن پرپیشرفت تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے درمیان ہو نے والی بحث اور پرویز خٹک کی تلخ باتوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ یہ سلسلہ آگے چل نکلا ہے،پشاور سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے جس طر ح سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی ہی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے وزراء کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی تجویز دی ہے یہ بات اس بات کی عکاس ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر کسی بھی وقت’’ابال‘‘آسکتا ہے جس سے معاملات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں بظاہر تو پی ٹی آئی پر وزیر اعظم عمران خان کا کنٹرول مضبوط ہے لیکن اس طرح کے واقعات سے لگتا ہے کہ اگر عوامی مسائل پر توجہ نہ دی گئی اور ایم این ایز کے لیے اپنے حلقوں میں جانا مشکل ہوا تو اس طرح کی مزید’’بغاوتیں‘‘جنم لیں گی۔اگرچہ اپنی ہی پارٹی کی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کے ’’جرم‘‘میں نور عالم خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیاگیا ہے،پی ٹی آئی کی قیادت کاخیال ہے کہ نور عالم خان کو پورے میڈیا کی موجودگی میں قومی اسمبلی کے فلور پر پارٹی پر تنقید کرنے کے بجائے پارٹی کے اندورنی اجلاس میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔نور عالم خان کورونا وائرس سے بھی متاثر ہوگئے ہیں، اسلام آباد میں وفاقی دارالحکومت میں پولیس اہلکار وں پر فائرنگ کر کے ایک کو شہید اور تین کو زخمی کردیاگیاجبکہ پولیس کی جوابی فائرنگ سے دونوں دہشتگرد بھی مارے گئے،وزارت داخلہ نے اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا ہے،یہ واقعہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابھی بھی دہشتگردی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی دہشتگردوں کے ’’سلیپنگ سیلز‘‘موجود ہیں پولیس پر حملہ لوٹ مار یا ڈکیتی نہیں بلکہ دہشت گردی کی کارروائی تھی۔وزیر داخلہ شیخ رشیداحمد نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ پو لیس اہلکار ڈیوٹی پر تھا جب دہشت گردوں نے اس پر فائرنگ کر دی، یہ چوری یا ڈکیتی کا واقعہ نہیں تھا، ہمیں ایک طرح کا اشارہ ملا ہے کہ اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعات ہونے لگے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ سال کا پہلا واقعہ ہے اور ہمیں بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔واقعے میں ملوث مجرمان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ دونوں افراد دہشت گرد تھے اور جوابی کارروائی میں مارے گئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس سے منسلک تمام اہم دستاویزات کو منظر عام پر لانے کا حکم دے دیا ہے،ان دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے ایک بار پھر حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی جبکہ اپوزیشن ان کو حکومت کے خلاف استعمال کرے گی۔یہ دستاویزات ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کا حصہ تھیں جو چند ہفتے قبل جاری کی گئی تھی، ان دستاویزات کو خفیہ رکھا گیا تھا اور جب کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی تو اس کے ساتھ جاری نہیں کیا گیا۔جن دستاویزات کو پبلک کیا جا رہا ہے ان میں وہ تمام کاغذات شامل ہوں گے جو ای سی پی نے ریاست پاکستان کے ذریعے اپنے 3 جولائی 2018 کے خط میں مانگے تھے۔جن دستاویزات کو ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا ہے ان میں (1) لین دین کی تاریخ وار تفصیلات کے ساتھ 2009 سے 2013 تک پاکستان میں کہیں بھی پی ٹی آئی کے زیر انتظام تمام بینک اکاؤنٹس کی فہرست (2) 2009 سے 2013 تک ہر مالی سال کے لیے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں بیرونِ ملک سے منتقل ہونے والے تمام فنڈز کی منتقلی کی ملکوں کے حساب سے فہرست بشمول ترسیلات زر کے نام/تفصیلات (3) ہر مالی سال یعنی 2009 سے 2013 کے لیے پاکستان اور بیرون ملک پی ٹی آئی کے زیر انتظام/آپریٹ کیے گئے تمام اکاؤنٹس کی ماہانہ بینک اسٹیٹمنٹس شامل ہیں۔ادھرحکومت نے قرض دینے والے عالمی اداروں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے یکم فروری سے بجلی کے فی یونٹ بنیادی ریٹس میں 95 پیسے تک اضافے اور غیر محفوظ صارفین کو ایک سلیب کا فائدہ دینے کا فیصلہ کرلیاہے،وفاقی حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاور سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈی 20 ارب روپے تک کم ہوجائے گی اور کے-الیکٹرک سمیت تمام تقسیم کار کمپنیوں کے لیے فی یونٹ بجلی کا بنیادی ٹیرف 18 روپے 75 پیسے تک بڑھ جائیگا، فیصلے سے فی یونٹ بجلی میں اوسطاً 53 پیسے کا اضافہ ہوگا۔ بجلی ایک بار پھر مہنگی ہو نے سے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔وزیراعظم عمران خان نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلی فونک گفتگو کی جس میں انہوں نے روسی صدر کی جانب سے توہین رسالت کے خلاف بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے توہین رسالت کی مخالفت میں ولادیمیر پیوٹن کے بیان کا خیرمقدم کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے معاملے کو مسلسل اجاگر کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کے سنگین اثرات کے حوالے سے دنیا کو آگاہ کیاہے۔۔