ہندوتوا کے رنگ میں رنگتا بھارت

ان دنوں بھارت کے اندر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور مذہبی حوالے سے اہم حیثیت رکھنے والے شہر ہریدوار میں ہونے والے دو جلسے زیر بحث ہیں۔ ان میں سے پہلا جلسہ دھرم سنسد ہے جس کا انعقاد ریاست اترا کھنڈ کے شہر ہریدوار میں 17 دسمبر 2021ء کو ہوا جبکہ دوسرا جلسہ چار روز بعد 21 دسمبر کو ’ہندو یوا واہنی‘ کے عنوان سے دہلی میں منعقد ہوا۔ یہ دونوں جلسے صرف مسلمانوں کے خلاف ہونے والی نفرت انگیز تقریروں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ کئی اور حوالوں سے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ جلسے جہاں بھارت کے اندر موجود مسلمانوں کے اضطراب اور بے چینی کا باعث بنے ہیں وہیں اس ملک کے دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت ہونے کے تشخص کو تار تار کررہے ہیں۔ پورے بھارت میں مختلف سطحوں پر ان جلسوں کے خلاف ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔
ان جلسوں کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی زیر سماعت ہے جو صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج اور سینئر ایڈووکیٹ انجنا پرکاش نے دائر کی تھی۔ جو بینچ اس درخواست کی سماعت کررہا ہے اس کی سربراہی عدالت عظمیٰ کے صدر منصف این وی رمنا کررہے ہیں۔ 12 جنوری کو درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے بینچ نے کہا کہ سماعت دس روز بعد ہوگی۔ درخواست گزاروں کے وکیل کپل سبل نے عدالت سے درخواست کی کہ سماعت کے لیے 17 جنوری کی تاریخ مقرر کردی جائے کیونکہ اگلا دھرم سنسد 23 جنوری کو علی گڑھ میں منعقد کیا جارہا ہے۔ عدالت نے یہ کہتے ہوئے اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ کئی اور بینچوں کے سامنے اسی نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور عدالت ان مقدمات کی نوعیت بھی جاننا چاہتی ہے، لہٰذا سماعت دس روز بعد ہی ہوگی۔
ہریدوار اور دہلی میں منعقد ہونے والے جلسوں میں یتی نرسنگھانند اور دیگر مقررین نے مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے وہاں موجود لوگوں سے یہ عہد لیا کہ وہ بھارت کو مکمل طور پر ایک ہندو ریاست بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسی دوران لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہوئے انھیں مسلمانوں کے قتل عام پر بھی اکسایا گیا۔ ہریدوار میں دھرم سنسد کے دوران نفرت انگیز تقریریں کرنے پر دس افراد کے خلاف تعزیراتِ ہند کی مختلف دفعات کے تحت دو ابتدائی اطلاعی رپورٹیں (ایف آئی آرز) تو درج کی گئیں تاہم اس سلسلے میں مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ چار روز پہلے یتی نرسنگھانند کو پولیس نے گرفتار تو کیا ہے لیکن بھارت کے این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں دھرم سنسد کے انعقاد اور وہاں نفرت انگیز تقریر کرنے پر نہیں بلکہ خواتین کے خلاف نامناسب زبان استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
مذکورہ جلسے، اقلیتوں کے خلاف پُر تشدد واقعات اور ایسی ہی دیگر کارروائیاں ایک ہی خاص طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی نے 26 مئی 2014ء کو ملک کے چودھویں وزیراعظم کے طور پر اپنا منصب سنبھالا تھا اور یہی وہ موقع تھا جب انتہا پسند ہندوؤں کو لگا کہ اب وہ بالعموم بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو جیسے چاہیں اپنے تعصب اور تشدد کا نشانہ بنائیں ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ وزیراعظم مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سنگھ پریوار میں شامل دائیں بازو کی تمام جماعتوں کو نہ صرف ہندو نظریات کو فروغ کا بھرپور موقع دیا بلکہ انھیں یہ تحفظ بھی فراہم کیا کہ اگر ان کے وابستگان ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی اقلیت کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرتے ہیں تو انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشو ہندو پریشد، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں کے وابستگان پورے ملک میں کھل کھیل رہے ہیں اور کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔
بھارت میں مذکورہ جماعتیں نفرت اور تعصب کو ہوا دیتے ہوئے جو شدت پسندی پھیلا رہی ہیں اس کا نشانہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں کے خلاف بھی ہر طرح کی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس صورتحال سے بے خبر نہیں ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی مفادات کا تحفظ انھیں بہت عزیز ہے، لہٰذا انسانی حقوق کی واضح اور شدید خلاف ورزیوں سے متعلق بہت سے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہونے کے باوجود بھارت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔ بہت سے عالمی ادارے جو بات بات پر مذمتی بیانات جاری کرتے ہیں اور خود کو انسانی حقوق کا دنیا میں سب سے بڑا علم بردار قرار دیتے ہیں ان کی طرف سے بھی ایسے واقعات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے ہندوتوا کے رنگ میں رنگے جانے کی وجہ وہاں بسنے والے ہندو انتہا پسند تو ہیں ہی لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے بھی اپنی مجرمانہ خاموشی کے ذریعے انھیں تقویت فراہم کررہے ہیں۔ اندریں حالات، بھارت میں مذہبی تعصب، نفرت اور شدت پسندی کی بنا پر کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری صرف بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں پر ہی نہیں بلکہ ہر اس ملک اور ادارے پر بھی ہوگی جو اس سلسلے میں آج اپنا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن کر نہیں رہا!

ای پیپر دی نیشن