انگریز حج کارن ڈوف کی عدالت میں کسی مقامی وکیل کے پیشِ ہونے کے امکانات کومحدود کر دیا گیا تھا۔ اچا نک کالی داس باسو اوپندر ناتھ سین اورسجن بندو کمرے عدالت میں داخل ہوئے ۔ان کو بنگال کے مشہور شاعر اور ادیب قاضی نذرالسلام نے کچھ ایڈوانس دے کر بھیجا تھا ۔ قاضی نذرالسلام نے یہ رقم اپنی واحد جائیداد دوکان شیش مل کو گروی رکھ کر حاصل کی تھی ت نذرالسلام کا خیال تھا کہ کھدی رام بوسن جو تحریک جدوجہد آزادی کا کم عمر حریت پسند نوجوان تھا جسکی عمر صرف اٹھارہ برس تھی اس طرح وہ نہ انگریزی قانون اور نا بھارتی مقامی قانون کے مطابق موت کا سزا وار مانا جاسکتا تھا ۔ اسی ایک دلیل کو لے کر وہ انگریز منصف کے سامنے پیش ہوئے 21 مئی 1908کو جج کارن ڈوف نے انگریزی قانون کے تحت عمر قید کی سزا سنادی۔اسطرح سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل ہونے کی ا پیل دائر کر دی گئی وہ بھی عدالت عالیہ نے مسترد کردی تھی۔ سا مراجی عدالت نے سارے قانو نی تقاضے پورے کردیئے تھے۔ اٹھارہ سالہ کھردری رام بوسن کو 11 اگست 1908 میں پھانسی کی سزا سنا کر رہا کر دیا گیا اس جرم کی پاداش میں انھوں نے علاقے مجسٹر یٹ ڈگلس کنگس کو مارنے کی کوشش کی تھی جس بھگی پر حملہ ہوا تھا اس پر ایک بیرسٹر کی بیٹی اور انکی اہلیہ سوار تھیں وہ دونوں اس حملے میں ہلاک ہوئیں۔ ہندوستان کے تمام اخبارات میں اس خبر کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کر کے نمایاں کیا گیا تھا۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ بیس سے تیس سال سے قید کشمری حریت پسندوں میں کسی کے خلاف ایسا کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا مگر وہ دہشت گرد ٹھر ے ان بھارتی سول سروس افسران کی حیثیت بھی کشمیر میں انگر یز قابض سے بدتر ہے مگر کسی حریت پسند نے 30 سال قید کے دوران کسی افسر کے اہل خانہ کو اذیت نہیں پہنچا ئی۔مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی حالت بھا ر تی زندانوں میں انتہائی ابترہے ۔ یہاں قاتوں کو اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ قانون خود ہی موت کا سبب بن چکا ۔ نہ وکیل کو مقدمہ لڑنے کی گنجائش ھے نہ بحث و تکرار اور نہ ہی قانونی مو شگافیاں بس قانون کو اتنا لمبا کھینچا جائے کہ قیدی خود ہی وقت کے بے رحم تھپیڑوں کی نذر ہوجائے ۔ 5 اگست کے بعد کالا قانون خوف ناک شکل اختیار کر چکا ہے۔یہی بات جب میں نے ایک معروف وکیل سے سر ی نگر فون کرکے پوچھی تو انہوں نے پہلے لمبا سا نس لیا پھر بولے کہ میں تو خود انصا ف کے حصول کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں۔ یہ سن کر میری حیرت میں مزید اضافہ ہوگیاکیونکہ موصوف سری نگر با ر کے سیکرٹری جنرل ہیں اور انتہائی اثر و رسوخ کی حامل م شخصیت ہیں ۔وہ پھٹ پڑے کہ جب انصاف کی گد ی ناگپو ر کے ماتحت ہو اور وہاں سے احکامات صادر ہوں تو انصاف خود شرمندہ ہو کر منہ چھپا تا پھرتاہے ۔میں نے ایک اورلقمہ دیا کہ اس سنگین ظلم و جبر کو ایوانوں میں اٹھا ئیے ۔ بولے کس ایوانِ میں ؟ میں نے کہا عالمی سطح پر …وہ اب باضابطہ غصے اور تیش میں آچکے تھے۔بولے آزا د فضاوں میں بیٹھ کر مشوریں دے رہے جنا ب۔ مجھے پاسپورٹ ہی رینیو نہیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ پہلے سیکیورٹی کلیئرنس کروالیں ۔ میں نے بے صبری سے پوچھا ۔ جناب آپ اتنے بڑے وکیل ہیں مقدمہ دائر کریں کیونکہ آپ معزز اور سینئر شہری ہیں ۔ اب وہ باقاعدہ طیش میں آگئے۔ بو لے کیسے ؟
پھر بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانونی نذا کتو ں کو تم کیا سمجھو گے؟ تم قانون کو سمجھتے نہیںہو .معاملہ sub jndiceہوجائے گا اگر معاملہ عدالت گیا. تو پھر کبھی جج انصاف سے متعلق فیصلہ نہ کر پائے گا ۔ میرا تجسس اب بڑھ گیا کیو نکہ میں ابتک اس بے بس قیدی کی طرح سوچ رہا تھا جو کشمیر سے باہر منتقل کیا گیا تھا اور اس کو کم سے کم واپس وادی منتقل کرنے کی غرض سے وکیل صاحب کی مدد لینا چا ہتا تھا۔ میری خواہش آرزو ہی رہ گئی کیونکہ اگر معاملہ عدالت گیا تو پھر الصاف کے سب چانس ختم ہوجائیں گے، مقبوضہ کشمیر میں عدا لتی نظام نے خوفنا ک شکل اختیار کر لی ہے
مقبوضہ وادی ، ایک مقدمہ دو قوم ؟
Jan 20, 2022